سری نگر: وادی کشمیر میں سخت ترین سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی روایتی کشمیری اچار کی مانگ میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ چلہ کلاں کے دوران نہ صرف درجہ حرارت منفی میں چلا جاتا ہے بلکہ کشمیری گھرانوں میں وہ تمام غذائیں بھی زیادہ استعمال ہونے لگتی ہیں، جو بدن کو حرارت دیتی ہیں۔ انہی روایتی خوراکوں میں ایک کشمیری اچار بھی ہے، جس کی خوشبو اور ذائقہ آج بھی ہر عمر کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔
سرینگر کی تاریخی درگاہ حضرت بل کے باہر واقع مارکیٹ میں اس روزمرہ کی بڑھتی ہوئی خریداری نے آچار فروشوں کو ایک مرتبہ پھر مصروف کر دیا ہے۔ گزشتہ پچاس برس سے حضرت بل کے باہر اچار فروخت کرنے والے مشتاق احمد کے اسٹال پر چلہ کلاں کے آغاز کے ساتھ ہی روزانہ خریداروں کا رش بڑھ گیا ہے، جس نے اس کاروبار کو نئی زندگی بخشی ہے۔
مشتاق احمد، جو گزشتہ آدھی صدی سے روایتی مصالحوں اور قدیم ذائقوں کے ساتھ اچار تیار کر رہے ہیں نے یو این آئی کو بتایا کہ اس سال اچار کی مانگ معمول سے کہیں زیادہ ہے۔ ان کے مطابق سردیوں میں اچار کی کھپت ہمیشہ بڑھتی ہے لیکن موجودہ چلہ کلاں میں صورتحال اس سے مختلف ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ بعض دن ایسے بھی آتے ہیں جب دوپہر سے پہلے ہی سارا مال ختم ہوجاتا ہے اور انہیں شام تک دوبارہ تیار کرنا پڑتا ہے۔ مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ لوگ نہ صرف گھروں کے لیے بلکہ بیرون ریاست میں رہنے والے رشتہ داروں کے لیے بھی اچار خرید رہے ہیں، جبکہ سیاح اسے بطور تحفہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
حضرت بل کے نواحی علاقوں میں رہنے والے مقامی لوگوں کے مطابق چلہ کلاں کے دوران اچار ہر گھر کی ضرورت بن جاتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف کھانے کو مزید ذائقہ دار بناتا ہے بلکہ سرد موسم میں جسم کو حرارت بھی فراہم کرتا ہے۔ ڈلگیٹ کے رہائشی بشیر احمد کہتے ہیں کہ پہلے لوگ گھروں میں خود اچار تیار کرتے تھے لیکن اب روایتی مہارت رکھنے والے فروشوں کے ہاتھ کا ذائقہ ہی اصل کشمیری ذائقہ دیتا ہے، اسی لیے لوگ ان دکانوں سے ہی خریداری کرتے ہیں۔
علاقے کی خواتین بھی اچار کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کی تصدیق کرتی ہیں۔ نسیمہ جان، جو ہر سال چلہ کلاں کے آغاز پر حضرت بل آکر اچار خریدتی ہیں، کہتی ہیں کہ وہ کئی جگہوں کا اچار چکھ چکی ہیں مگر مشتاق احمد کے ہاتھ کا ذائقہ انہیں کہیں اور نہیں ملا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس بار سردی کی شدت اور بچوں کی فرمائش کے باعث انہیں معمول سے زیادہ مقدار میں اچار خریدنا پڑا ہے۔
وادی میں آنے والے سیاح بھی کشمیری اچار کے منفرد ذائقے کو بے حد پسند کر رہے ہیں۔ کولکاتہ سے آئی ہوئی سیاح روپا چٹرجی نے بتایا کہ انہیں کشمیری کھانوں کے بارے میں بہت کچھ سننے کو ملا تھا لیکن اچار ان کے لیے ایک نیا اور دلچسپ تجربہ ثابت ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس کا منفرد ذائقہ انہیں اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اپنے گھر والوں کے لیے بھی اضافی جار خرید لیے ہیں۔
مشتاق احمد کے مطابق ان کے پاس گاجر، مولی، مکس سبزی، مشروم اور مرچوں سمیت کئی اقسام کے اچار دستیاب ہیں، جن کی قیمتیں دو سو سے چار سو روپے فی کلو تک ہیں، جبکہ قیمتیں موسم اور سبزیوں کی دستیابی پر منحصر ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اچار تیاری میں کشمیری روایتی مصالحے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں میتھی، سونف، سرخ مرچ، سرسوں کا تیل اور خشک سبزیاں شامل ہیں، جو اس کے ذائقے کو منفرد بناتے ہیں۔
مقامی باشندوں کا کہنا ہے کہ اچار صرف ایک غذا نہیں بلکہ کشمیری روایت اور ثقافت کا حصہ ہے۔ حضرت بل کے رہائشی سہیل شبنم کے مطابق جب سیاح اچار خریدتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وادی کی ثقافت بھی ان کے ساتھ سفر کر رہی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ کشمیری اچار کا ذائقہ نہ صرف زبان پر بلکہ ذہن میں بھی ایک دیرپا تاثر چھوڑ جاتا ہے۔
سخت ترین سردیوں میں جب درجہ حرارت منفی میں ہوتا ہے، تب کشمیری اچار نہ صرف جسم کو حرارت دیتا ہے بلکہ سردیوں کی اس طویل راتوں اور کم درجہ حرارت کے موسم میں میزوں پر ذائقے اور روایت کی نئی روح بھی پھونک دیتا ہے۔ چلہ کلاں کے آغاز کے ساتھ ہی حضرت بل کے باہر مشتاق احمد کے اسٹال پر بڑھتی ہوئی بھیڑ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کشمیری اچار کی مقبولیت آج بھی برقرار ہے اور وقت کے ساتھ اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔




