سری نگر: وادی کشمیر میں سال رواں کے آغاز کے ساتھ ہی سیاحت کا شعبہ جوبن پر تھا جہاں ایک طرف وادی کے سیاحتی مقامات سیاحوں سے بھرے پڑے تھے وہیں دوسری طرف ہوٹلوں اور شکاروں میں بھی سیاحوں کی بھیڑ تھی بلکہ سری نگر کے لالچوک میں بھی بڑی تعداد میں سیاح نظر آ رہے تھے۔
سری نگر میں واقع ایشیا کے سب سے بڑے باغ گل لالہ نے صرف ایک ماہ میں 8.25 لاکھ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا جو اب تک سب سے بڑا ریکارڈ ہے۔ سیاحوں کی غیر معمولی آمد کے پیش نظر اس صنعت کے لئے ریکارڈ توڑ سیزن کی امید کی جا رہی تھی اور اس صنعت سے وابستہ لوگ خوشی و شادمانی کے گلستان میں مگن تھے۔
لیکن شو مئی قسمت، وادی میں خوشی کا یہ سماں 22 اپریل کی دوپہر کو ماتم کدے میں تبدیل ہوگیا جب ایک ایسا وحشت ناک اور کربناک واقعہ پیش آیا جس نے پوری انسانیت کو دہلا دیا اور کشمیر کے ساتھ ساتھ پورے ملک کو غم کے بہر بیکراں میں ڈبو دیا۔
جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ سے 45 کلو میٹر دور واقع وادی کے مشہور زمانہ سیاحتی مقام پہلگام میں سیاح بیسرن وادی کی مسحور کن حسن سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ دوپہر ایک بجے اچانک تین دہشت گرد نمودار ہوئے، جن کی شناخت بعد میں پاکستانی شہریوں کے بطور ہوئی، نے سیاحوں پر فائرنگ کر دی۔ ایم 4 کاربائن اور دو اے کے – 47 رائفلوں سے مسلح ان دہشت گردوں نے 25 سیاحوں اور ایک مقامی باشندے کو ابدی نیند سلا دیا۔
اس بے دردانہ قتل عام سے نہ صرف وادی بلکہ ملک بھر میں ماتم کا ماحول سایہ فگن ہوگیا اور اس بہیمانہ واقعے نے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کو مکمل فوجی تصادم کے دہانے تک پہنچا دیا۔
وادی کشمیر اس قیامت خیز صدمے سے کبھی نہیں سنبھل سکی اور اس کے نتیجے میں وادی میں شعبہ سیاحت مکمل طور پر ٹھپ ہوگئی جس کا اثرات ہنوز باقی ہیں۔ قبل ازیں اس حملے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم دی ریزسٹنٹ فرنٹ قبول کی۔
اس واقعے کے بعد وادی کی حالیہ تاریخ میں ایک غیر معمولی منظر دیکھا گیا کہ وادی بھر میں لوگ اس بہیمانہ واقعے کے خلاف سڑکوں پر آگئے اور احتجاج کرکے اس کی شدید مذمت کی۔اس حملے کے بعد فوری طور پر انتظامی اور سفارتی اثرات بھی سامنے آئے۔ جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے سیاحوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے کئی سیاحتی مقامات کو بند رکھنے کا حکم صادر کیا جس سے شعبہ سیاحت پر مضر اثرات مرتب ہوئے۔
پہلگام واقعے کے بعد نئی دہلی نے 1960 کے سندھ طاس معاہدے کو بھی معطل کر دیا جو پاکستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کا دہائیوں پرانا ایک معاہدہ تھا۔
ہندوستان نے 7 مئی کو آپریشن سندور کا آغاز کیا جس کے تحت پاکستان اور پاکستان زیر قبضہ کشمیر میں دہشت گردی کے ڈھانچوں پر فضائی اور میزائل حملے کئے گئے جس کے نتیجے میں طرفین کے درمیان چار دنوں تک جاری رہنے والی کشیدگی کے دوران سرحدی اضلاع خاص طور پر پونچھ کو سرحد پار شدید گولہ باری کا سامنا کرنا پڑا۔بعد میں دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرلز آف ملٹری آپریشنز کے درمیان بات چیت کے بعد 10 مئی کو یہ کشیدگی ختم ہوگئی۔
سری نگر کے بالائی علاقے میں 28 جولائی کو "آپریشن مہا دیو” کے دوران ایک مختصر جھڑپ میں تین دہشت گرد مارے گئے جسے حکام نے اپریل کے حملے کے ذمہ دار عناصر کے خلاف ایک فیصلہ کن کارروائی قرار دیا۔ تاہم سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے حمکت عملیوں کی کامیابیوں کے با وجود نئے چلینجز بھی سامنے آگئے۔ سری نگر میں جیش محمد سے منسلک دھمکی آمیز پوسٹروں کی تحقیقات کے دوران جموں وکشمیر پولیس نے ایک بڑے ‘ بین الاقوامی اور بین ریاستی وائٹ کالر دہشت گرد ماڈیول’ کا انکشاف کیا جس کے مبینہ طور پر لال قلعہ دھماکے کے ساتھ روابط ہیں۔ لال قلعہ دھماکے کے بعد شروع ہونے والی وسیع پیمانے کی کریک ڈائون کارروائیاں تا حال جاری ہیں۔
کشمیر میں سال رواں میں کم سے کم 21 ملی ٹنٹ مارے گئے جبکہ فوج سے تعلق رکھنے والے 6 اہلکار بھی جاں بحق ہوگئے تاہم ہولیس یا سی آر پی ایف کو کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
گرچہ اس سال کشمیر میں دہشت گردی کے مقابلے نسبتاً کم رہے لیکن سال اختتام پر متعدد سیکورٹی چلینجز سے دوچار رہا۔ پہلگام اور لال قلعہ جیسے واقعات اس بات کی اشارہ کرتے ہیں کہ سیکورٹی صورتحال ہنوز نازک ہے۔
سیاسی محاذ پر نیشنل کانفرنس کی منتخب حکومت نےقانون ساز اسمبلی کی بحالی کے بعد اپنا پہلا سال مکمل کیا تاہم منتخب قیادت اور لیفٹیننٹ گورنر کے درمیان دوہرے کنٹرول کی وجہ سے حکمرانی محدود رہی جس کے نتیجے میں اکثر انتظامی اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات سامنے آئے۔
وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بار ہا مرکز کی جانب سے تعاون اور ترقی کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی انہوں نے خاص طور پر راج بھون (لوک بھون) سے انتظامی معاملات میں اپنے محدود اختیارات کا بھی اعتراف کیا۔
رواں سال کے ماہ نومبر میں ہوئے انتخابی نتائج نے بھی اسی ابہام کی عکاسی کی جب نیشنل کانفرنس کو بڈگام ضمنی انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ بڈگام ایک ایسا حلقہ تھا جس پر نیشنل کانفرنس کو طویل عرصے سے قبضہ تھا دوسری جانب بی جے پی نے نگروٹہ سیٹ پر اپنا قبضہ بر قرار رکھا۔
سیاسی تجزیہ کار اور کشمیر یونیورسٹی کے سابق پروفیسر نور اے بابا کا کہنا ہے کہ امسال جموں وکشمیر میں سیاسی طور پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا: ‘مجھے نہیں لگتا ہے کہ اس سال کسی خاص اہمیت کی سیاسی پیش رفت ہوئی، بس پہلگا واقعہ پیش آیا اور اس کے بعد ہونے والی کشیدگی نے واقعات کو مرکز توجہ بنا دیا اور غیر یقینی صورتحال پیدا کی’۔





