سری نگر: دہلی میں پیش آئے حالیہ کار دھماکے کی تفتیش نے نیا رخ اختیار کر لیا ہے اور قومی تحقیقاتی و خفیہ ایجنسیاں اب اس کیس کو ایک ممکنہ’منظم دہشت گردی ماڈیول‘کے زاویے سے دیکھتے ہوئے جموں و کشمیر کے متعدد اضلاع میں تحقیقات کو وسیع کر رہی ہیں۔ مرکزی اور ریاستی سطح کی سیکورٹی ایجنسیاں سری نگر، پلوامہ، اننت ناگ اور شوپیاں میں مسلسل کارروائیاں انجام دے رہی ہیں، جن کے دوران کئی مشتبہ مقامات کی نشاندہی، چھاپے اور پوچھ گچھ کا عمل جاری ہے۔
دارالحکومت دہلی میں پیش آنے والا یہ کار دھماکہ ابتدائی طور پر مقامی نوعیت کا واقعہ سمجھا جا رہا تھا، لیکن جائے وقوعہ سے ملنے والے بارودی مواد کے آثار نے معاملے کو فوراً قومی سطح کے خطرات کے زمرے میں شامل کر دیا۔ دھماکے کی نوعیت اور استعمال شدہ دھماکہ خیز مواد کی ساخت نے ماہرین کو اس بات پر مجبور کیا کہ یہ کسی بڑے منصوبے یا تنظیم کے زیرِ اثر انجام دیا گیا عمل بھی ہو سکتا ہے۔
اسی تناظر میں مرکزی تفتیشی ایجنسیوں نے دھماکے کے مختلف علاقوں میں تکنیکی چیک، کال ریکارڈ ڈمپنگ، سی سی ٹی وی فوٹیجز کی جانچ اور ڈیجیٹل سراغ رساں آلات کا استعمال کرتے ہوئے متعدد مشتبہ روابط کا پتہ لگایا، جن میں کچھ لنکس کشمیر کے جنوبی اضلاع تک پہنچ رہے تھے۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، گزشتہ چند ہفتوں میں جنوبی کشمیر کے بعض علاقوں میں غیر معمولی رابطوں، ڈیجیٹل ٹریفک اور ممکنہ’سلیپر لنک‘کی موجودگی کے اشارے ملے تھے، جس کے بعد دہلی دھماکے نے اس پر مزید روشنی ڈالی۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ تفتیش اس امکان کا جائزہ لے رہی ہے کہ آیا دھماکے میں استعمال ہونے والا مواد یا ساز و سامان کشمیر کے کسی نیٹ ورک کے ذریعے حاصل کیا گیا یا نہیں۔
سری نگر، اننت ناگ، شوپیاں اور پلوامہ میں گزشتہ چار دنوں کے دوران متعدد مقامات پر چھاپے مارے گئے جس دوران کئی افراد کو پوچھ تاچھ کے سلسلے میں طلب کیا گیا ہے۔حکام نے دہلی دھماکے کے بعد جاری اپنے مشترکہ بیان میں واضح کیا ہے کہ:’جو کوئی شخص دہشت گرد تنظیموں کی مدد، سہولت کاری، مالی معاونت، یا ساز و سامان فراہم کرنے میں ملوث پایا گیا، اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔‘
اس بیان کے بعد متعدد اضلاع میں پولیس نے حساس علاقوں میں خصوصی ناکہ بندی بھی بڑھا دی ہے، جبکہ بین الاضلاعی سرویلنس ٹیموں کو فعال کر دیا گیا ہے۔اب تک کیے گئے چھاپوں اور ضبط شدہ شواہد سے تحقیقات کو تقویت ضرور ملی ہے، لیکن حکام کے مطابق:’دہلی دھماکہ ایک پیچیدہ اور تکنیکی نوعیت کا کیس ہے، اور حتمی نتیجہ اخذ کرنے میں وقت لگے گا۔‘
مرکزی ایجنسیاں دھماکے کے محرک، مقاصد، ممکنہ نیٹ ورک، فنڈنگ چینل، اور ساز و سامان کے ذرائع پر ہر زاویے سے تحقیق کر رہی ہیں۔





