بدھ, نومبر ۱۲, ۲۰۲۵
15.6 C
Srinagar

دہلی دھماکہ کیس میں اب تک 15 گرفتار، تین حراست میں

نئی دہلی:دہلی میں ہونے والے دھماکے کے سلسلے میں، جو مبینہ طور پر جیشِ محمد کے لیے کام کرنے والے ایک "ڈاکٹر دہشت گرد ماڈیول” سے منسلک بتایا جا رہا ہے، اب تک 15 افراد کو گرفتار اور تین کو حراست میں لیا گیا ہے یہ گرفتاریاں جموں و کشمیر پولیس نے کی ہیں اور اب تک کل 56 ڈاکٹروں سے پوچھ گچھ ہو چکی ہے اس ماڈیول پر پیر کی شام 6 بج کر 52 منٹ پر لال قلعے میں ہونے والے دھماکے کا الزام ہے۔اسپتال کے ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ مرنے والوں کے جسم پر دھماکہ خیز مواد کے کوئی آثار نہیں ملے، تاہم تفتیش کاروں کو شبہ ہے کہ دھماکے میں ایک ترمیم شدہ (Modified) دھماکہ خیز مادہ استعمال کیا گیا ہوگا۔

یہ پورا معاملہ سرینگر کے نوگام پولیس اسٹیشن علاقے سے شروع ہوا، جہاں سیکیورٹی فورسز کو دھمکیاں دینے والا ایک اشتعال انگیز پوسٹر پایا گیا۔اس سے قبل 19 اکتوبر کو اس دھمکی کے سلسلے میں مقدمہ درج کیا گیا اور تحقیقات شروع ہوئیں۔تحقیقات کے ابتدائی مرحلے میں 20 سے 27 اکتوبر کے دوران مولوی عرفان احمد واغ (شوپیاں) اورضمیر احمد (واکورہ، گاندربل) کو گرفتار کیا گیا۔اس کے بعد 5 نومبر کو سہارنپور سے ڈاکٹر عادل گرفتار ہوا،جس کے نتیجے میں 7 نومبر کو اننت ناگ اسپتال سے ایک AK-47 رائفل اور دیگر گولہ بارود برآمد ہوا۔پھر 8 نومبر کو فرید آباد کی الفلاح یونیورسٹی سے مزید رائفلیں، پستولیں اور گولہ بارود ضبط کیا گیا۔بعد ازاں پوچھ گچھ میں ماڈیول کے مزید ارکان کا انکشاف ہوا،جس کے نتیجے میں ڈاکٹر مزمل گرفتار ہوئے اور اسلحہ و گولہ بارود کا بڑا ذخیرہ برآمد کیا گیا۔9 نومبر کو فرید آباد کے دھوج علاقے کے رہائشی مدراسی نامی شخص کو گرفتار کیا گیا۔

تحقیقاتی ایجنسیوں کا دعوی ہے کہ اس کے بعد 10 نومبر کو فرید آباد کے ڈھیرا کالونی میں واقع الفلاح مسجد کے امام حافظ محمد اشتیاق کے مکان سے 2,563 کلوگرام دھماکہ خیز مواد برآمد ہوا۔اس کے علاوہ دیگر چھاپوں میں 358 کلوگرام مزید دھماکہ خیز مواد، ڈیٹونیٹر اور ٹائمر ضبط کیے گئے،یوں کل برآمد شدہ مواد کی مقدار تقریباً 3,000 کلوگرام تک پہنچ گئی۔پولیس کے مطابق، ان کارروائیوں کے دوران الفلاح یونیورسٹی کا ملازم اور ماڈیول کا رکن ڈاکٹر عمر محمد زیرِ زمین چلا گیا۔

10 نومبر کی شام قومی دارالحکومت لال قلعے کے قریب خوفناک دھماکہ ہوا،جس کے بعد دہلی پولیس، نیشنل سکیورٹی گارڈ (NSG)، نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) اور فارنزک ٹیموں نے فوری کارروائی کرتے ہوئےزخمیوں کو اسپتال منتقل کیا اور ڈی این اے نمونے، دھماکہ خیز مواد کے ذرات اور دیگر شواہد جمع کیے۔جائے حادثہ سے کٹا ہوا ہاتھ برآمد ہوا ہے، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ ڈاکٹر عمر محمد کا ہے،جن پر خودکش حملہ آور ہونے کا الزام ہے۔اس کی تصدیق کے لیے ان کی والدہ کے ڈی این اے نمونے کی جانچ کی جا رہی ہے۔

اور یہی یونیورسٹی اس دہشت گرد ماڈیول کا مرکز تھی۔عمر کے پڑوسی اور ساتھی ڈاکٹر مزمل شکیل کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔دھماکے میں استعمال ہونے والی کار ڈاکٹر شاہین شاہد کے نام پر رجسٹرڈ تھی،جنہیں بعد میں لکھنؤ سے گرفتار کیا گیا۔

۔انہوں نے مبینہ طور پر اعتراف کیا ہے کہ وہ تقریباً دو سال تک دھماکہ خیز مواد جمع کرتی رہیں اور دیگر ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر ایک بڑے دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کی۔پولیس ذرائع کے مطابق، سی سی ٹی وی فوٹیج سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈاکٹر عمر محمد گاڑی چلا رہا تھا، اور دھماکے میں استعمال شدہ مواد فرید آباد میں برآمد شدہ دھماکہ خیز مواد سے مطابقت رکھتا ہے۔

افسران ابھی یہ جانچ کر رہے ہیں کہ یہ دھماکہ پہلے سے منصوبہ بند تھا یا عمر محمد کے گھبرا جانے کی وجہ سے اچانک پیش آیا۔مزید تحقیقات سے یہ بھی پتا چلا کہ دہلی لانے سے پہلے وہ گاڑی29 اکتوبر سے 10 نومبر تک فرید آباد کے دھوج میں الفلاح میڈیکل کالج میں کھڑی تھی۔11 نومبر کو کیس کو باضابطہ طور پر نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (NIA) کے حوالے کر دیا گیاتاکہ ماڈیول کی فنڈنگ اور اس کے وسیع نیٹ ورک کی گہرائی سے جانچ کی جا سکے۔

یو این آئی

Popular Categories

spot_imgspot_img