سری نگر: شہرہ آفاق ڈل اور نگین جھیلوں پر تیرتی ہائوس بوٹ جہاں وادی کشمیر کے حسن و جمال کو چار چاند لگا دیتی ہیں وہیں یہ کشتیاں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی دلچسپی کا خاص مرکز رہی ہیں لیکن آج وہ سب کچھ ماضی کی یاد بن چکا ہے۔ اب ان ہاؤس بوٹس پر سناٹا چھایا ہوا ہے اور ان کے مالکان کے چہروں پر مایوسی کے گہرے سائے نظر آتے ہیں۔
رواں سال22 اپریل کو پہلگام میں پیش آئے دہشت گردانہ حملے نے وادی کے سیاحتی شعبے کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس حملے میں 25 سے زائد غیر ملکی سیاح اور ایک مقامی گائیڈ جاں بحق ہوئے۔ اس دل دہلا دینے والے واقعے کے بعد سیاحوں کا اعتماد بری طرح متزلزل ہوا اور وادی میں سیاحت کا پہیہ اچانک جام ہوگیا۔ہاؤس بوٹ مالکان کے مطابق یہ بحران ان کے وجود کو ہی نگل رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے: ‘750 ہاؤس بوٹس میں 3 ہزار سے زائد کمرے موجود ہیں لیکن فی الحال صرف 30 سے 40 کمرے زیرِ استعمال ہیں۔ باقی سب خالی پڑے ہیں۔ بیشتر مالکان نے اپنا عملہ برطرف کر دیا ہے اور درجنوں خاندان فاقہ کشی کے دہانے پر ہیں’۔
ڈل جھیل پر شکارا چلانے والے غلام حسن نے اپنی روداد سناتے ہوئے کہا:’ہم دن بھر شکارا لے کر بیٹھے رہتے ہیں مگر ایک بھی گاہک نہیں آتا۔ پہلے ہر روز دس سے پندرہ سواریاں ملتی تھیں، اب دنوں تک خالی ہاتھ لوٹنا پڑتا ہے’۔
جھیل کے کنارے دکان چلانے والے فیاض احمد کا کہنا تھا: ‘سیاح ہی نہیں تو قالین، دستکاری اور کپڑے کون خریدے گا؟ دکان پر مکھیاں بھنبھارتی ہیں، آمدنی صفر ہے’۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی میں سیاحت محض ایک صنعت نہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کے روزگار کا واحد ذریعہ ہے۔ ہاؤس بوٹس، شکارا والے، دستکار، قالین باف، حتیٰ کہ جھیل کے کنارے چھوٹی چھوٹی دکانیں بھی براہِ راست سیاحوں پر انحصار کرتی ہیں۔
سیاحتی ماہرین کے مطابق ہاؤس بوٹس محض رہائش نہیں بلکہ کشمیر کی پہچان ہیں۔ ان کے غائب ہونے سے وادی کی سیاحتی شناخت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا۔
مقامی لوگ اب بھی اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ حکومت ریلیف پیکیج اور ہنگامی اقدامات کے ذریعے سیاحت کی بحالی کو یقینی بنائے گی تاکہ وادی کی رونقیں دوبارہ لوٹ سکیں۔ فی الحال مگر، ڈل اور نگین جھیلیں خاموشی کے سائے میں ڈوبی ہوئی ہیں، جہاں کبھی قہقہوں کی گونج سنائی دیتی تھی۔