الاسکا: امریکی صدر ٹرمپ اور روسی صدر پوتن کے درمیان اہم ملاقات ختم ہوگئی ملاقات میں جنگ بندی کا اعلان نہ ہوسکا، بعد ازاں دونوں شخصیات نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق روسی اور امریکی وفود کےدرمیان ملاقات ڈھائی گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی اس موقع پر امریکہ کی جانب سے وزیرخارجہ مارکو روبیو اور خصوصی مندوب وٹکوف جبکہ روسی وفد میں وزیرخارجہ لارؤف اور ایلچی یوری اوشاکوف بھی موجود تھے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدرپوتن نے کہا کہ ملاقات مثبت اور تعمیری رہی، میرے اور صدرٹرمپ کے درمیان اچھے براہ راست رابطے ہیں، مذاکرات کی دعوت دینے پرامریکی صدر کے شکر گزار ہیں۔ صدر پوتن نے کہا کہ ہم دونوں تنازع کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
صدر پوتن کا کہنا تھا کہ پائیدار اور دیرپا امن کیلئے جنگ کی بنیادی وجوہات کو ختم کرنا ہوگا، یورپ سمیت دنیا بھر میں سلامتی کے توازن کو بحال ہونا چاہیے، صدر پوتن نے کہا کہ میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ روس کے تمام جائز خدشات کو زیرغور لانا ہوگا۔
روسی صدر نے بتایا کہ 2022میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر ہوتے تو یوکرین میں جنگ کی نوبت ہی نہ آتی، سابق امریکی صدر جوبائیڈن کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ صورتحال کو تصادم کی سطح پر نہ لائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ رو س کی یوکرین جنگ کے خاتمے اور دیرپا حل میں خاص دلچسپی ہے، امید ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اتفاق رائے سے یوکرین میں امن کی راہ ہموار ہوگی۔
صدرٹرمپ نے اپنے خطاب میں کہا کہ روسی صدر سے ملاقات کے بعد یوکرین کے صدر زیلنسکی اور نیٹو حکام سے ٹیلی فون پر بات کروں گا۔
ٹرمپ نے کہا کہ روسی صدر سے سربراہی ملاقات میں بڑی پیشرفت ہوئی ہے لیکن یوکرین جنگ کے حوالے سے کوئی معاہدہ طے نہیں پایا کیونکہ جب تک معاہدہ نہ ہو، تب تک کوئی معاہدہ نہیں ہوتا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے بتایا کہ اپنے روسی ہم منصب پوتن سے تعمیری ملاقات رہی، اس موقع پر کئی نکات پر اتفاق رائے پایا گیا۔
علاوہ ازیں پریس کانفرنس کے دوران روسی صدر پوتن نے صدرٹرمپ کو ماسکو میں اگلی ملاقات کی دعوت دی۔
جس کے جواب میں صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ماسکو میں اگلی ملاقات سے متعلق دیکھیں گے کہ کیا یہ ممکن ہے؟۔
قبل ازیں الاسکا آمد پر روسی صدر پوتن کا صدر ٹرمپ نے ریڈ کارپٹ پر استقبال کیا، صدرٹرمپ روسی مہمان کو اپنی گاڑی میں بٹھا کر ایئربیس سے ملاقات کے مقام پر لے کرگئے۔
یو این آئی