لیفٹیننٹ گور نر منوج سنہا کے سامنے متاثرین کا چھلکا درد، انصاف کا پہلا قدم، مگر زخم ابھی باقی
نمائندہ خصوصی
سرینگر :جموں و کشمیر میں شاید ہی کوئی ایسا گھر ہو جس نے پچھلی تین دہائیوں کی شورش، ہڑتالوں، پتھراﺅ اور خون کے کھیل میں کسی اپنے کو نہ کھویا ہو۔ لیکن کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جن کی چھاتی پر دہشت گردی کی بندوق نے ایسا وار کیا ہے کہ زخم آج بھی ہرے ہیںاور شاید عمر بھر ہرے ہی رہیں گے۔یہ وہ زخم ہیں جن کا مداوا کسی معافی یا مالی امداد سے ممکن نہیں۔ یہ وہ درد ہے جو آنکھوں سے نہیں، لہجوں سے چھلکتا ہے، خاموشیوںسے ٹپکتا ہے۔ وہ مائیں جنہوں نے اپنے بیٹے زمین میں دفنائے، وہ بچے جنہوں نے اپنے باپ کے جنازے اٹھائے، وہ بیوائیں جن کے سروں سے چادر چھن گئی،آج بھی زندہ ہیں، مگر روز مرتی ہیں۔حال ہی میں جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے شمالی کشمیر کے سرحدی ضلع بارہمولہ میں ایک تقریب کے دوران دہشت گردی سے متاثرہ خاندانوں کے40 لواحقین کو سرکاری ملازمتوں کے تقرر نامے پیش کیے۔یہ تقریب صرف تقرری کی دستاویزات سونپنے کا عمل نہ تھابلکہ ایک طویل خاموشی کے بعد ان زخم خوردہ لوگوں کی آواز سننے کا لمحہ تھا۔اسٹیج پر تقررنامے بانٹے گئے، مگر فرش پر آنکھوں میں درد، لہجوں میں شکوہ، اور سروں پر وہ محرومیوں کے بادل تھے، جنہیں برسوں تک کوئی سرکار چھو بھی نہ سکی۔’ہم بس لاشیں اٹھاتے رہے‘:سرحدی ضلع کپوارہ کے سہیل یوسف شاہ، جن کی والدہ کو دہشت گردوں نے قتل کیا، نے لیفٹیننٹ گورنر کے سامنے کہا:’میری ماں کو دہشت گردوں نے مار دیا۔ اس کے بعد کوئی دروازہ کھٹکھٹانے نہیں آیا۔ نہ حکومت، نہ کوئی لیڈر۔ آج پہلی بار کسی نے سنا ہے۔باقی تو ہم بس لاشیں اٹھاتے رہے،ہم آپ کے شکر گزار ہے کہ آپ نے ہمیں سنا ‘۔انہوں نے مزید کہا :’کسی بھی حکومت نے کبھی یہ جاننے کی پرواہ نہیں کی کہ ہمارا درد کیا ہے۔ دہائیوں تک جموں و کشمیر کا سیاسی طبقہ آئی ایس آئی کے ہاتھوں کھیلتا رہا، دہشت گردوں کو طاقت دیتا رہا، اور متاثرین کو بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا۔‘’کیا ہمارا درد اتنا ہی سستا تھا؟‘:بارہمولہ کے شیری گاو¿ں سے تعلق رکھنے والے فیاض احمد شیخ نے کہا:’میرے والد کو دہشت گردوں نے شہید کیا۔ اس کے بعد ہم سے ثبوت مانگے گئے، شناخت کے کاغذات مانگے گئے، اور وعدے ہوتے رہے۔ سالوں کی قطاروں کے بعد بھی ہمیں صرف انتظار ملا۔ کیا ہمارا درد اتنا ہی سستا تھا؟‘۔ان کا کہناتھا :’کوئی ہمارے درد کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتا۔جموں و کشمیر کی سابقہ حکومتوں نے متاثرین کا مذاق اڑایا،جھوٹے وعدے کیے، اور بار بار ثبوت مانگتے رہے۔‘انہوں نے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا سے مطالبہ کیا کہ متاثرہ خاندانوں کی مدد کے لیے ریزرویشن فراہم کیا جائے۔’میرا بیٹا تھا۔۔۔ایک ہی تھا‘:ایک غمزدہ ماں، جن کا تعلق شمالی کشمیر سے ہے، نے بھرائی ہوئی آواز میں اپنی ر±وداد سنائی:’میرے پاس صرف ایک بیٹا تھا۔ دہشت گردوں نے اسے مار ڈالا۔تب سے لیکر آج کسی حکومت نے میری کوئی مدد نہیں کی ‘۔ایک اور متاثرہ خاتون نے کہا :’ شوہر پہلے ہی نہیں رہے۔ اب دو پوتوں کو اکیلے پال رہی ہوں۔ غربت بھی ہے، خوف بھی۔ مگر سب سے بڑا درد یہ ہے کہ کسی نے پوچھا تک نہیں کہ ہم زندہ بھی ہیں یا نہیں؟۔‘’ہم ان کہانیوں کو منظرِ عام پر لا رہے ہیں‘:لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے کہا:’یہ وہ خاندان ہیں جو دہائیوں تک نظر انداز کیے گئے، ترک کیے گئے۔ آج ہم ان کی کہانیوں کو سامنے لا رہے ہیں۔ یہ تقرر نامے پہلا قدم ہیں۔ مکمل انصاف ابھی باقی ہے۔‘انہوں نے مزید کہا کہ ایک آن لائن پورٹل، ضلعی ہیلپ ڈیسک، اور فوری فائل کلیئرنس کا نظام بھی قائم کیا گیا ہے تاکہ کوئی متاثرہ خاندان اب کاغذوں کے ساتھ دفاتر کے چکر نہ کاٹے۔جموں و کشمیر کے پہاڑوں پر کئی دہائیوں سے صرف برف نہیں جمی، بلکہ درد، یادیں اور چپ کی وہ پرتیں بھی جم گئی تھیں جنہیں آج پہلی بار سرکار نے سنا ہے۔ دہشت گردی سے چھلنی ان خاندانوں کے لیے یہ پہلا موقع تھا جب کسی نے انہیں نہ صرف بلایا بلکہ ان کی بات سنی۔