ہفتہ, جون ۲۱, ۲۰۲۵
31.9 C
Srinagar

پاکستان کی امریکی صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش: ’عالمی شطرنج کی بساط پر شاندار چال‘ یا خطے کی صورتحال کے تناظر میں ایک ’نامعقول‘ فیصلہ؟

مانیٹرنگ ڈیسک

عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومتِ پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کرنے کی سفارش کر دی ہے۔حکومتِ پاکستان کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان اور انڈیا کے مابین حالیہ لڑائی کے دوران صدر ٹرمپ کی ’فیصلہ کن سفارتی مداخلت اور قائدانہ کردار‘ کے اعتراف میں کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ بدھ کو پاکستانی آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر وائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا جس کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان، اینا کیلی کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف جنرل منیر کی میزبانی کی جنھوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ روکنے پر صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی تھی۔

تاہم امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طنزیہ انداز میں کہا ہے کہ میں کچھ بھی کرلوں مجھے نوبیل نہیں ملے گا۔خیال رہے کہ اب تک چار امریکی صدور امن کا نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔ اگر ٹرمپ کو امن کا نوبیل انعام ملتا ہے تو وہ اسے حاصل کرنے والے پانچویں امریکی صدر ہوں گے۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’انڈیا کی بلا اشتعال اور غیرقانونی جارحیت نہ صرف پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی تھی بلکہ اس کے نتیجے میں کئی بے گناہ شہری ہلاک ہوئے جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔ جس کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا تھا۔‘

حکومتی بیان میں مزید کیا کہا گیا ہے؟

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’خطے میں کشیدگی کے اس لمحے میں صدر ٹرمپ نے سٹریٹیجک دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد اور نئی دہلی کے ساتھ سفارتی رابطوں کے ذریعے تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال میں کشیدگی کو کم کیا، جنگ بندی کروائی اور دو جوہری ممالک کے درمیان تنازع کو بڑھنے سے روکا جس کے سبب خطے اور اس سے باہر لوگوں کو قیامت خیز نتائج بھگتنا پڑ سکتے تھے۔‘

پاکستانی حکومت کا مزید کہنا ہے کہ امریکی صدر کی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ’امن کے داعی‘ ہیں اور تنازعات کو ’بات چیت کے ذریعے حل‘ کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے کشمیر کے دیرینہ تنازعے کے حل کے لیے صدر ٹرمپ کی مخلصانہ پیشکش کو بھی سراہا ہے۔ بیان کے مطابق ’جموں و کشمیر کا تنازع جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کی سب سے بڑی وجہ ہے اور جب تک اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر مکمل عمل درآمد نہیں ہوتا، خطے میں پائیدار امن کا قیام ممکن نہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ 2025 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والے بحران کے دوران صدر ٹرمپ کی قیادت اور سفارتی حکمتِ عملی ان کے ماضی کے امن قائم کرنے والے اقدامات کا تسلسل ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ ان کی مخلص کوششیں نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر حساس خطوں میں بھی امن و استحکام کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔

حکومتی بیان میں مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ بحران، بالخصوص غزہ میں جاری انسانی المیے اور ایران سے متعلق بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں بھی صدر ٹرمپ کی قیادت اور سفارتی کردار کو سراہا گیا۔ پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر ٹرمپ کی کوششیں عالمی استحکام کے لیے مثبت نتائج لائیں گی۔

مثبت نتائج لائیں گی۔

getty

،تصویر کا ذریعہGetty Images

مجھے نوبیل نہیں ملے گا: ٹرمپ

ادھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اس بارے میں پوسٹ کیا ہے۔

ٹرمپ نے اپنی کامیابیوں کی فہرست سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ میں نے امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ مل کر جمہوریہ کانگو اور روانڈا کے درمیان ایک عظیم معاہدہ کیا ہے، مجھے اس کام کے لیے امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا، مجھے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ روکنے پر نوبیل نہیں ملا۔ مجھے مصر اور ایتھوپیا کے درمیان امن برقرار رکھنے کا انعام نہیں ملا، مشرق وسطیٰ میں ابراہیمی معاہدے کرنے پر بھی امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا۔

ٹرمپ کا ردعمل پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ طنزیہ زبان استعمال کر رہے ہیں۔

اپنی پوسٹ کے آخر میں ٹرمپ نے لکھا ’چاہے میں کچھ بھی کروں، روس یوکرین ہو یا اسرائیل ایران، مجھے امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا لیکن لوگ سب کچھ جانتے ہیں، اور یہی میرے لیے سب سے اہم ہے۔‘

کیا کوئی ملک یا رہنما یا اعلیٰ عہدے دار کسی دوسرے ملک کے سربراہ کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کر سکتے ہیں؟

نوبیل انعام کی آفیشل ویب سائٹ کے مطابق، صرف مخصوص اور اہل افراد ہی نوبیل امن انعام کے لیے امیدواروں کو نامزد کرنے کے مجاز ہیں۔ ان میں:

  • قومی حکومتوں اور بین الاقوامی اسمبلیوں کے ارکان (جن میں سربراہانِ مملکت، وزرا اور پارلیمنٹیرین شامل ہیں)
  • بین الاقوامی عدالتوں کے ارکان
  • متعلقہ شعبوں کے یونیورسٹی پروفیسر
  • سابق نوبیل انعام یافتگان
  • نارویجن نوبیل کمیٹی کے ارکان

یعنی کوئی بھی اہل شخص، بشمول سرکاری عہدیدار، کسی بھی امیدوار کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر سکتا ہے، چاہے وہ امیدوار کسی غیر ملکی ریاست کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی یہ نامزدگی بطور ادارہ نہیں بلکہ صرف ایک اہل شخص (یعنی کوئی وزیر یا ممبر پارلیمنٹ) کی جانب سے ذاتی حیثیت میں جمع کروائی جا سکتی ہے۔

Getty Images

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اس سے قبل کن غیرملکی سربراہانِ مملکت کو نامزد کیا جا چکا ہے؟

اس سے قبل بھی کئی غیر ملکی سربارہانِ مملکت کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔ مثلاً:

ایڈولف ہٹلر کی نامزدگی (1939)

سوئیڈن کے رکن پارلیمنٹ ایرک گوتفریڈ کرسٹین برانڈٹ نے سنہ 1939 میں ہٹلر کو امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا اور اسے طنز و مزاح کے طور پر لیا گیا اور بعد میں یہ نامزدگی واپس بھی لے لی گئی۔

ولادیمیر پوتن کی نامزدگی (2014)

روسی صدر ولادیمیر پوتن کو 2014 میں ’انٹرنیشنل اکیڈمی آف سپرِچوئل یونٹی اینڈ کوآپریشن آف پیپلز آف دی ورلڈ‘ نامی تنظیم نے امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا۔ تنظیم کا مؤقف تھا کہ پوتن نے شام پر کیمیائی حملے کے بعد امریکہ کی ممکنہ فوجی کارروائی کو روکنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی (2025)

یوکرین کے پارلیمانی رکن اولیکسانڈر میریژکو، جو صدر زیلنسکی کی پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، نے نومبر 2024 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو 2025 کے امن کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا۔ مقصد یہ پیش کرنا تھا کہ وہ روس یوکرین جنگ میں امن لانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

یہ مثالیں واضح کرتی ہیں کہ غیر ملکی سربراہان کو قانونی طور پر نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا جا سکتا ہے بشرطِ یہ نامزدگی ایک اہل شخص کرے۔

بشکریہ:بی بی سی اردو 

Popular Categories

spot_imgspot_img