ہفتہ, مئی ۲۴, ۲۰۲۵
29.4 C
Srinagar

کشمیر میں کھیتوں میں دھان کی پنیری لگانے کا سیزن جوبن پر

سری نگر: وادی کشمیر میں کھیتوں میں دھان کی پنیری لگانے کا کام شروع ہوا ہے اور کسان ان دنوں کھیتی باڑی کے ساتھ مصروف عمل ہیں۔

تاہم وادی کے طول و ارض میں زرعی اراضی پر میوہ باغوں، رہاشئی مکانوں، کمرشل عمارتوں کی تعمیر سے دھان کے کھیت ہر گذرتے برس کے ساتھ سکڑتے ہیں۔

علی محمد نامی ایک کسان نے بتایا: ‘ہمارے نوجوان کھیتوں پر شاذ و نادر ہی جایا کرتے ہیں اور یہاں سارا کام بیرون وادی کے مزدور ہی کیا کرتے ہیں اور اس سال بھی حسب معمول ایسا ہی ہوا’۔

انہوں نے کہا کہ ایک طرف زرعی اراضی سکڑ رہی ہے تو دوسری طرف نوجوان طبقہ ذمہ داری سے کنارہ کشی اختیار کر رہا ہے جس سے یہاں اس اہم ترین شعبے پر خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا: ‘کورونا وبا کی وجہ سے نافذ لاک ڈائون کے دوران کھیتوں میں ہمارے نوجوان پنیری لگاتے ہوئے نظر آئے تھے لیکن اس کے بعد پھر ہم غیر مقامی مزدورں پر ہی منحصر ہوئے’۔

وادی کے میدانی علاقوں میں ان دنوں کسان دھان کی پنیری لگا رہے ہیں تاہم بالائی علاقوں میں کسان کھیتوں کو پنیری لگانے کے لئے تیار کر رہے ہیں اور میدانی علاقوں میں پنیری لگاتے ہوئے کشمیری کم غیر مقامی مزدور زیادہ نظر آ رہے ہیں۔

وسطی ضلع بڈگام کے پاٹوائو سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف نامی ایک کسان نے بتایا: ‘پہلے زمین تیار کرنے میں کافی وقت لگتا تھا کیونکہ کسان سارا کام خود اپنے ہاتھوں سے کرتے تھے، آج ٹریکٹر اور ٹلر کام پر لگائے جاتے ہیں جو ایک دن کا کام ایک گھنٹے میں پورا کرتے ہیں’

انہوں نے کہا: ‘پنیری لگانے کے لئے غیر مقامی مزدور آتے ہیں جو ٹھیکے پر کام کرتے ہیں لہذا اب یہاں کھیتی باڑی کوئی محنت طلب کام نہیں رہا’۔

ان کا کہنا تھا: ‘ہمارے اپنے بچے یہ کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہے، آج کا نوجوان کھیت پر جانے کو کسر شان سمجھتا ہے، یہ اچھی بات ہے کہ غیر مقامی مزدور آتے ہیں اور دوسرے کام انجام دینے کے لئے مشینری ہے ورنہ ہمارے کھیت بے کار رہنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا ہے’۔

اسی سالہ غلام نبی نامی ایک عمر رسیدہ کسان نے بتایا: ‘ہمارے لڑکپن میں دھان کی پنیری لگانے کا سیزن ایک تہوار کی حیثیت رکھتا تھا، کوئی کسی مزدور کو یہ کام انجام دینے کے لئے نہیں لاتا تھا، بلکہ یہ کام مل کر اپنے احباب و اقارب اور ہمسایوں ساتھ انجام دیا جاتا تھا’۔

انہوں نے کہا: ‘دس بارہ کنبے ایک ساتھ مل کر یہ کام کرتے تھے، بھاری بھاری ہر کنبے کی کھیت کو آباد کیا جاتا تھا’۔

ان کا کہنا ہے: ‘جس کسان کے کھیت میں پنیری لگانی ہوتی تھی اس دن اس کے گھر میں با قاعدہ لنگر لگتا تھا اور مختلف پکوان تیار کئے جاتے تھے جن کو دوپہر کے کھانے کے لئے کھیت پر ہی لایا جاتا تھا’۔

انہوں نے کہا: ‘اس سیزن کو مقامی زبان میں ‘تھج کاد’ کہتے تھے، اس سیزن میں کھیتوں میں چہل پہل ہوتی تھی اور ہر کھیت سے خصوصی کشمیری گانوں کی آوازوں سے ہر سو سچ مچ تہوار جیسا سماں ہوتا تھا’۔

موصوف کسان نے کہا: ‘لیکن آج ایسا نہیں ہے، پتہ ہی نہیں چلتا ہے کب پنیری کا کام شرع ہوتا ہے اور کب یہ ختم ہوتا ہے’۔

انہوں نے کہا: ‘زمین بھی سکڑ رہی ہے، جہاں جہاں وسیع و عریض لہلہاتے کھیت کھلیان نظر آتے تھے وہاں آج بستیاں، کمرشل عمارتیں یا میوہ باغ دکھائی دے رہے ہیں’۔

ایک اندازے کے مطابق وادی میں گزشتہ برسوں کے دوران ہزاروں ہیکٹر زرعی زمین کو دیگر مقاصد بالخصوص رہائشی و کمرشل ڈھانچوں کی تعمیر اور میوہ باغات میں بدلنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے

ماہرین کا کہنا ہے کہ وادی، جہاں لوگوں کی بنیادی خوراک چاول ہے، میں زرعی زمین کا تیزی سے سکڑنا اس ہمالیائی خطہ کے مستقبل کے لئے انتہائی ضرر رساں ثابت ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کی طرف سے زیادہ کمائی کی کوشش میں زرعی زمین کو میوہ باغات میں بدلنا بھی کسی بھی صورت میں خوش آئند نہیں ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img