جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
17.5 C
Srinagar

آن لائن، مگر تنہا۔۔۔۔

ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں سوشل میڈیا ہماری روزمرہ زندگی کا لازمی جزو بن چکا ہے۔ رابطے کی یہ سہولت جہاں ہمیں ایک دوسرے کے قریب لانے کا دعویٰ کرتی ہے، وہیں اس نے ہمیں اندر سے کتنا کھوکھلا کر دیا ہے، یہ ہم میں سے اکثر محسوس ہی نہیں کرتے۔ بچے ہوں یا نوجوان، طالب علم ہوں یا ملازمین، ہر شخص ہاتھ میں موبائل لیے اسکرین کی چمک میں کھویا ہوا ہے، جیسے اصل دنیا کی رونقیں محض دھندلی یادیں بن چکی ہوں۔حالیہ دنوں میں وائرل ہونے والی کچھ ویڈیوز نے ایک خطرناک رخ کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان ویڈیوز میں نوجوان لڑکے مذاق یا سنجیدگی کے درمیان دھندلائی ہوئی سرحدوں کو پار کرتے دکھائی دیتے ہیں، جہاں گینگ وار جیسی سنگین اصطلاحات کو تفریح کا سامان بنایا جا رہا ہے۔ دھمکیاں، بڑھکیں، اور خود ساختہ تشدد کا انداز،یہ سب کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ایک فلمی منظر ہو، مگر افسوس کہ یہ حقیقت ہے۔ سوشل میڈیا کی روشنی میں نہ صرف اخلاقی قدریں مدھم ہو رہی ہیں بلکہ ذہنی صحت پر بھی کاری ضرب لگ رہی ہے۔
یہ صرف ایک تہذیبی زوال نہیں بلکہ ایک نیا چیلنج بھی ہے ،انٹرنیٹ کرائم کا۔ آج کا نوجوان صرف جھوٹے وقار کے لیے جعلی پروفائلز بناتا ہے، دوسروں کو بلیک میل کرتا ہے یا پھر خود کسی سائبر مجرم کا نشانہ بن جاتا ہے۔ سائبر ب±لنگ، آن لائن فراڈ، ڈیجیٹل ہراسانی اور پرائیویسی کی خلاف ورزیاں ہمارے معاشرے میں خاموشی سے پھیل رہی ہیں، اور ہم یا تو لاعلم ہیں یا بے پروا۔اس تشویشناک صورتحال میں ہمیں اب صرف تماشائی نہیں، بلکہ فعال کردار ادا کرنے والا بننا ہوگا۔ والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے ساتھ صرف وقت ہی نہ گزاریں بلکہ ان کی ڈیجیٹل دنیا کو بھی سمجھیں، ان سے بات کریں، سوال کریں اور ان کے رویوں پر نظر رکھیں۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی آن لائن تربیت بھی کریں اور انہیں یہ سکھائیں کہ حقیقی دنیا سوشل میڈیا سے کہیں زیادہ پیچیدہ، مگر اہم ہے۔ علما کرام اپنے خطبات میں ان مسائل کا ذکر کریں اور نوجوانوں کو دین کی روشنی میں رہنمائی دیں اور سب سے بڑھ کر، معاشرے کے ہر باشعور فرد کو آگے آ کر اس اخلاقی بحران کے خلاف آواز بلند کرنا ہوگی۔
حکومت اور متعلقہ ادارے بھی اس معاملے میں بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ وقت آ گیا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں سائبر سیفٹی اور ڈیجیٹل اخلاقیات پر مبنی ورکشاپس کا اہتمام کریں۔سوشل میڈیا پر ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرایا جائے۔ انٹرنیٹ جرائم کے خلاف ایک مربوط اور قابل رسائی شکایتی نظام بنایا جائے، جہاں ہر شہری بلا خوف اپنی بات رکھ سکے۔ والدین اور نوجوانوں کے لیے آگاہی پروگرامز ترتیب دیے جائیں تاکہ وہ ڈیجیٹل دنیا میں قدم رکھتے ہوئے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔یاد رکھیں، سوشل میڈیا پر ویڈیوز اپلوڈ کرنے سے کوئی سوشل نہیں بنتا۔ سوشل وہ ہوتا ہے جو اپنے رشتوں، اپنے ماحول اور اپنی قدروں سے جڑا ہوا ہو۔ ایک دوست کے ساتھ چائے پر بیٹھ کر کی گئی گفتگو، بزرگوں سے سنی گئی کوئی پرانی کہانی، یا کسی غریب کی دل جوئی ،یہ سب وہ تجربات ہیں جو انسان کو انسان بناتے ہیں اور یہی وہ حقیقی سوشل ہونے کا راز ہے جسے ہمیں نوجوان نسل تک دوبارہ پہنچانا ہوگا۔اگر ہم نے آج خاموشی اختیار کی، تو کل ہمارے ہاتھ میں صرف اسکرینیں ہوں گی ۔بےجان، مگر شور سے بھری ہوئی۔ آئیے، مل کر وہ شور کم کریں، اور اس کے بدلے ایک ایسی آواز اٹھائیں جو نوجوان دلوں کو شعور، اخلاق اور انسانیت کی طرف واپس لے جائے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img