منگل, اپریل ۲۹, ۲۰۲۵
26.7 C
Srinagar

سبزہ زار میں بہتا لہو۔۔۔۔۔

کشمیر کی وادی، جہاں بہار میں گلاب کھلتے ہیں، چشمے گنگناتے ہیں، اور ہوائیں محبت کا پیغام لاتی ہیں،آج ماتم کناں ہے۔ پہلگام، جو برسوں سے سیاحت، سکون اور فطری حسن کا استعارہ رہا، آج لہو میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایک ایسا مقام جو مقامی لوگوں کے لیے رزق کا وسیلہ اور بیرونی مہمانوں کے لیے جنت نظیر ٹھکانہ تھا، اب المناک تاریخ کا ایک خونی باب بن چکا ہے۔کل، پہلگام کے سبزہ زار میں اچانک وہ قیامت ٹوٹ پڑی، جس نے 26 معصوم سیاحوں کی جان لے لی۔ وہ سیاح جو شاید کشمیر کے حسین مناظر میں چند یادگار لمحے قید کرنے آئے تھے، انہیں ایسی بے رحمی سے مارا گیا کہ نہ صرف کشمیر بلکہ پورے ملک کی روح کانپ اٹھی۔ گولیوں کی گونج میں وہ قہقہے دب گئے جو پہاڑوں سے ٹکرا کر وادی کو زندہ رکھتے تھے۔ اب وہاں صرف سناٹا ہے، ایک ہولناک، وزنی، اور ر±لا دینے والا سناٹا۔یہ حملہ محض ایک پرتشدد کارروائی نہیں، یہ کشمیر کی روح پر ایک کاری ضرب ہے۔ یہ ان تمام دعووں، تمام کوششوں، اور تمام خوابوں کی توہین ہے جو ہم نے اس خطے میں امن، بھائی چارے، اور ہم آہنگی کے لیے دیکھے اور دکھائے۔ یہ حملہ ہر کشمیری کے دل پر ہے، جو چاہے جس مذہب، جس فرقے، یا جس سیاسی سوچ سے ہو، کیونکہ موت کا یہ منظر کسی ایک فرد یا گروہ کا نہیں، پوری انسانیت کا زخم ہے۔پہلگام کا یہ خونی واقعہ ایک ایسا لمحہ ہے ،جہاں ہم صرف مظلوموں کی لاشیں نہیں دیکھ رہے ، ہم اپنی ناکامی، اپنے ضمیر کی بے حسی اور ایک بیمار معاشرے کا آئینہ بھی دیکھ رہے ہیں، جس میں نفرت کی آندھیاں محبت کے چراغ بجھا رہی ہیں۔
کشمیر نے ہمیشہ امن کا خواب دیکھا ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے برصغیر کے خونریز مناظر کے بیچ یہی کہا تھا کہ ”مجھے امید کی ایک کرن کشمیر میں دکھائی دیتی ہے۔“ آج بھی، جب ہم پہلگام کے سبزہ زار میں بہتا خون دیکھتے ہیں، تو اسی کرن کی تلاش میں نظریں بھٹکنے لگتی ہیں۔ مگر یہ کرن بجھی نہیں ، وہ آج بھی کشمیری عوام کے اشکوں میں، ان کی خاموش ہڑتالوں میں، اور ان کے دل کے زخموں میں روشن ہے۔ آج کی مکمل ہڑتال اور پ±رامن احتجاج اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ کشمیری عوام کسی بھی طرح کی سفاکیت کے حامی نہیں، وہ امن کے طلبگار ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے۔یہ المیہ ایک لمحہِ خاموشی کا متقاضی نہیں، یہ ایک اجتماعی ضمیر کو جھنجھوڑنے والی چیخ ہے۔ یہ سوال کر رہا ہے کہ کب تک؟ کب تک ہم صرف اخباری سرخیاں پڑھ کر آگے بڑھ جائیں گے؟ کب تک ہم ہر لاش کو محض ایک ’واقعہ‘ سمجھ کر فراموش کر دیں گے؟ کب انصاف صرف رپورٹوں اور بیانات کی حد تک محدود رہے گا؟ کب مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کی حقیقی، غیر جانبدار، اور باوقار کوشش کی جائے گی؟
یہ حملہ صرف ایک مقام پر نہیں ہو، یہ اعتماد پر حملہ تھا، یہ امید پر حملہ تھا، یہ انسانیت پر حملہ تھا۔آج پہلگام کے سبزہ زار پر صرف خون نہیں گرا، ہماری اجتماعی خاموشی کا بوجھ بھی وہ زمین سہار رہی ہے۔ ہمیں اب فیصلہ کرنا ہوگا: ہم امن کا پرچم بلند کریں گے یا بندوقوں کے سائے میں زندگیاں گنواتے رہیں گے؟ ہم بھائی چارے کو فروغ دیں گے یا نفرت کے سوداگروں کے ہاتھوں کھلونا بنے رہیں گے؟وقت آ گیا ہے کہ ہم صرف الفاظ میں نہیں، اپنے رویوں، اپنے فیصلوں، اور اپنی اجتماعی کاوشوں میں امن کو جیتنے دیں۔ پہلگام کی مٹی میں بہنے والا خون صرف مقتولوں کا نہیں ، وہ ہمارے معاشرے کی روح پر لگے زخم کا اظہار ہے۔اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل پہلگام کی جگہ کوئی اور ہوگا، اور درد وہی رہے گا۔

Popular Categories

spot_imgspot_img