ہفتہ, اپریل ۱۹, ۲۰۲۵
20.1 C
Srinagar

قلم کی حرمت بمقابلہ کلک کی یلغار۔۔۔

عالمی سطح پر صحافت کو ایک مقدس پیشہ تصور کیا جاتا ہے، اور دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے حکمران پیشہ ور صحافیوں کی رائے اور مشورے نہایت سنجیدگی اور متانت سے لے کر ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے لیے ان مشوروں پر عمل کرتے ہیں اور حکومتی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ حکمران ایک پیشہ ور صحافی کو سماج میں ایک سنجیدہ اور اعلیٰ فکر کا انسان تصور کرتے تھے اور ان کو عوام کا خدمت گار اور مددگار مان کر چلتے تھے۔ غالباً ایک پیشہ ور صحافی کی اسی مثبت سوچ کی وجہ سے انہیں سماج اور معاشرے میں عزت و احترام کی نظر سے بھی دیکھا جاتا ہے۔ حکمران بھی پیشہ ور صحافیوں کو اکثر و بیشتر اپنے پاس ب±لا کر ا±ن کے ساتھ مختلف موضوعات پر بات چیت کرتے تھے۔دنیا میں سوشل میڈیا کا چلن ہوا اور ایک پیشہ ور صحافی اور صحافتی اداروں کو مشکلات کا سامنا ہونے لگا۔ دیکھا جائے تو سال2019 میں نمودار ہونے والی کورونا وبا سے دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ بھارت جیسے کثیر آبادی والے ملک میں شائع ہونے والے اخبارات اور رسالوں کی سرکولیشن میں کمی آئی، کیونکہ عام لوگ اخبار ہاتھ میں لینے سے خوف محسوس کرتے تھے۔
جہاں تک جموں و کشمیر کا تعلق ہے، یہاں بھی اخباری صنعت کو کافی نقصان ہوا اور کئی ادارے بند بھی ہوگئے، کیونکہ یہاں کے اخبارات اور رسالوں کی آمدنی کا واحد ذریعہ سرکاری اشتہارات ہیں جن میں کمی واقع ہوئی ہے۔جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، سیاستدانوں، بیوروکریٹوں اور عام لوگوں نے بھی اسی سوشل میڈیا کو دیکھنا اور سننا پسند کیا۔ مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہو رہی خبروں اور دیگر مواد میں کوئی ضابطہ اخلاق نہیں رہا، جبکہ اخبارات، رسالوں اور دیگر میڈیا اداروں کی وساطت سے منظر عام پر آنے والی خبروں، اداریوں اور دیگر کالموں میں لکھنے والا ہر پہلو کو مدنظر رکھتا تھا۔ وہ ہر وقت ان باتوں کا خیال رکھتا تھا کہ کہیں ا±س کے قلم یا زبان سے کوئی ایسی بات نہ نکل جائے جس سے سماج میں بگاڑ پیدا ہو، مذہبی بھائی چارے کو نقصان پہنچے یا معاشرے میں کسی قسم کی تباہی پھیل جائے۔ملک کے وزیرِ اعظم شری نریندر مودی نے پہلی مرتبہ وزیرِ اعظم بنتے وقت ایک خصوصی انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ”جب میں گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا، تو یہاں سے شائع ہونے والے تمام اخبارات کا مطالعہ کرتا تھا اور اس طرح نہ صرف ملکی اور عالمی معاملات سے باخبر رہتا تھا بلکہ گجرات ریاست میں لوگوں کے مسائل و مشکلات کی جانکاری بھی انہی اخبارات سے حاصل کرتا تھا، اور پھر اپنی انتظامیہ کو ان مسائل کے ازالے کے لیے ہدایات جاری کرتا تھا۔“
جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے، اس میں ضابطہ اخلاق، ادب، زبان اور سماج پر پڑنے والے منفی اثرات کے بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سماج کے ذی حس لوگ، سیاستدان اور انتظامی افسران بھی ان ہی لوگوں کو فالو کرتے ہیں جن کی وجہ سے تباہی اور افراتفری پھیلتی ہے۔چونکہ سوشل میڈیا کی لگام عالمی اداروں کے ہاتھوں میں ہے اور اس پر قدغن لگانا ممکن نہیں، لیکن ایک بات ضرور کی جا سکتی ہے، ایسے لوگوں کو فالو نہ کیا جائے یا ان کو آگے بڑھانے کی کوشش نہ کی جائے جو سوشل میڈیا کے نام پر سماج میں بگاڑ اور تباہی پھیلاتے ہیں۔ ان پر لگام کسنے کی ضرورت ہے۔ سرکار، انتظامی افسران اور صحافتی انجمنیں اس حوالے سے مو¿ثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔جہاں تک تسلیم شدہ اداروں کا تعلق ہے، ان کو سرکاری اور پرائیویٹ اداروں سے اشتہارات ملنے چاہئیں، کیونکہ ان اداروں میں پڑھے لکھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ، پیشہ ور افراد کے علاوہ بہت سارے لوگوں کو روزگار فراہم ہو رہا ہے۔ اس طرح یہ ادارے بے روزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت کی مدد کرتے ہیں اور پیشہ ور و ذمہ دار صحافت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img