سری نگر: اقلیتی امور کے مرکزی وزیر کرن رجیجو نے بدھ کے روز کہا کہ ایشیا کے سب سے بڑے ٹیولپ گارڈن کی صبح کی خوبصورت سیر سیاسی بحث کا موضوع بن گئی، اور اس کی گونج جموں و کشمیر اسمبلی میں بھی سنائی دی۔
انہوں نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں لکھا:”سری نگر میں قیام کے دوران ٹیولپ گارڈن کے دورے پر گیا، جہاں میری ملاقات محترم وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے ہوئی۔”
کرن رجیجو نے مزید کہا کہ یہ ملاقات جان بوجھ کر صبح کے وقت کی گئی تاکہ بعد ازاں آنے والے سیاحوں اور مقامی افراد کو کسی قسم کی زحمت نہ ہو۔
انہوں نے کہا:”اس مختصر اور خوشگوار ملاقات میں ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ خیالات اور خوشیوں کا تبادلہ کیا۔ آئیں، سیاست سے ہٹ کر کشمیر کی بے مثال خوبصورتی، قدرتی نظاروں اور رنگ برنگے پھولوں سے لطف اندوز ہوں۔”
واضح رہے کہ 7 اپریل کو کرن رجیجو نے شہرہ آفاق جھیل ڈل کے کنارے واقع ایشیا کے سب سے بڑے باغ گل لالہ (ٹیولپ گارڈن) میں صبح کی سیر کی اور وہاں کے دلکش نظاروں سے محظوظ ہوئے۔
اس موقع پر وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی ان کے ہمراہ تھے، اور اس دوران نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے بھی ان کی ملاقات ہوئی۔
مرکزی وزیر نے اپنی ’ایکس‘ پوسٹ میں اس خوشگوار تجربے کا ذکر کرتے ہوئے لکھا:”سری نگر میں وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے ساتھ ٹیولپ گارڈن کے متحرک رنگوں کے درمیان صبح کی ایک تازگی بخش سیر کی، اور وہاں ڈاکٹر فاروق عبداللہ سے بھی ملاقات ہوئی۔”
ادھر پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے دعویٰ کیا ہے کہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی جانب سے مرکزی وزیر کرن رجیجو کا سرخ قالین استقبال، وقف ترمیمی بل کے حق میں ایک جواز بن گیا ہے۔
انہوں نے کہا:”وقف ترمیمی بل کو پارلیمنٹ سے منظور کروانے کے بعد کرن رجیجو کا کشمیر کا دورہ ایک اسٹریٹیجک فیصلہ تھا۔”
ان کے مطابق :”بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے ان کا پرتپاک استقبال، ملک کے 24 کروڑ مسلمانوں کو یہ پیغام دینے کی ایک دانستہ کوشش تھی کہ ان کے خیالات کی کوئی اہمیت نہیں، جب کہ ریاست کا لیڈر ان کے مخالف موقف کے ساتھ کھڑا ہو۔”
محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ:”ٹیولپ گارڈن کے خوبصورت پس منظر میں یہ ملاقات کمیونٹی کی بے بسی اور کمزوری کا ایک عوامی جشن معلوم ہو رہی تھی۔ وزیر اعلیٰ کے اس اقدام نے نہ صرف مسلمانوں میں بیگانگی کے احساس کو گہرا کیا بلکہ ایک یکطرفہ فیصلے کو بھی جواز بخشا، جسے عوامی مفاد کے برخلاف سمجھا جا رہا ہے۔”
پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے بھی عمر عبداللہ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وقف ترمیمی بل کے پیش نظر انہیں بطور احتجاج کرن رجیجو سے ملاقات سے گریز کرنا چاہیے تھا۔
ادھر کرن رجیجو کے ساتھ لی گئی تصویر پر وضاحت دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا:”جن لوگوں نے بی جے پی کی گود میں بیٹھ کر جموں و کشمیر کی تباہی کی، دودھ اور مٹھائی کی باتیں کیں، نوجوانوں میں بیٹ تقسیم کیے اور انہیں اس وقت کے وزیر داخلہ کے پروگراموں میں زبردستی شامل کیا، آج وہی لوگ مجھ پر انگلی اٹھا رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا:”یہ درست ہے کہ دو روز قبل میں اپنے والد کو ٹیولپ گارڈن لے کر گیا تھا، جہاں اتفاقاً کرن رجیجو بھی موجود تھے۔ انہوں نے میرے ساتھ تصویر کھنچوانے کی خواہش ظاہر کی — تو کیا میں انکار کرتا اور بدتمیزی کرتا؟”
وزیر اعلیٰ نے مزید کہا:”اب وہی تصویر میرے خلاف ان لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جو خود بی جے پی کو جموں و کشمیر میں لانے کے ذمہ دار ہیں۔”