جمعتہ الوداع اور شبِ قدر کا مقدس امتزاج روحانی سرشاری اور عبادات کی گہری فضاءکو جنم دیتا ہے۔ رمضان کا یہ آخری مرحلہ جہاں ربِ کریم کی رحمتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں، وہیں عید کی آمد کا جوش و خروش بھی دلوں کو مسرت بخشتا ہے۔ مساجد، درگاہیں اور خانقاہیں روح پرور محافل کا مرکز بن جاتی ہیں۔ دوسری جانب بازاروں میں لوگوں کی چہل پہل اور عید کی خریداری کی گہما گہمی معاشرتی خوشحالی کی عکاسی کرتی ہے۔لیکن اس تمام تر رونق اور خوشی کے درمیان وہ خاندان بھی ہیں جو کرب و الم سے گزر رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں اننت ناگ، بارہمولہ اور سرینگر میں آتشزدگی کے کئی افسوسناک واقعات رونما ہوئے، جنہوں نے درجنوں کنبوں کو بے گھر کر دیا۔ اپنے گھر کی چھت سے محروم ہونا محض مادی نقصان نہیں، بلکہ یہ ایک جذباتی صدمہ بھی ہے۔ ان خاندانوں کی بحالی حکومت کی ذمہ داری تو ہے، مگر معاشرتی اور اخلاقی طور پر یہ ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ ان کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔
عید کا تہوار خوشی، محبت اور بانٹنے کا پیغام دیتا ہے۔ ایسے میں ان متاثرہ کنبوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنا ہماری سماجی ذمہ داری ہے۔ ایک جانب مساجد میں اللہ کے حضور جھکنا اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا لازم ہے، تو دوسری جانب ضرورت مندوں کی دستگیری کر کے حقیقی عبادت کی روح کو اجاگر کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔معاشرتی سطح پر فلاحی تنظیمیں، مخیر حضرات اور کمیونٹی سینٹرز آگے آ سکتے ہیں۔ مقامی سطح پر چندہ مہمات، امدادی پروگرامز اور کمیونٹی ڈرائیوز کے ذریعے متاثرہ خاندانوں کے لیے عید کے کپڑے، کھانے پینے کی اشیاءاور دیگر ضروری سامان فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے گھروں کی تعمیرِ نو کے لیے وسائل اکھٹے کرنا بھی ایک دیرپا حل ثابت ہو سکتا ہے۔میڈیا کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ متاثرہ خاندانوں کی کہانیاں اجاگر کرنا اور ان کی مشکلات کو سامنے لانا عوام میں شعور پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔
حکومتی اداروں کو بھی متحرک کرنا ضروری ہے تاکہ وہ امدادی کاموں میں تیزی لائیں اور متاثرین کو فوری ریلیف فراہم کریں۔ عوامی سطح پر رضاکارانہ خدمات کو فروغ دینا بھی نہایت اہم ہے، تاکہ لوگ خود اپنی استطاعت کے مطابق متاثرین کی مدد کر سکیں۔یہ وقت ہے کہ ہم اپنے دینی اور انسانی فریضے کو سمجھیں۔ ہمارے اعمال ہی ہمارے معاشرے کی اخلاقی قوت کا مظہر ہیں۔ اگر ہم عید کی مسرتوں میں اپنے پڑوسی، رشتہ دار یا کسی بھی ضرورت مند کو شامل کریں، تو یہی روحِ رمضان کا حقیقی اظہار ہوگا۔پس، شبِ قدر اورجمعتہ الوداع کے اس مبارک دن پر جب ہم دعا کے لیے ہاتھ بلند کریں، تو ان متاثرہ خاندانوں کی بحالی کے لیے بھی دعا کریں۔ اور اس دعا کو عمل سے ہم آہنگ کر کے ہم نہ صرف اپنی عید کو بابرکت بنا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگیوں میں بھی امید اور روشنی کا پیغام پہنچا سکتے ہیں۔
