جموں و کشمیر میں6.1 فیصد بے روزگاری کی شرح نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔ جنوری2025 تک3.70 لاکھ سے زائد نوجوانوں کا سرکاری روزگار پورٹل پر رجسٹریشن اس بات کا ثبوت ہے کہ روزگار کے مواقع کی قلت نوجوانوں کے مستقبل کو غیر یقینی بنا رہی ہے۔ حکومت کی جانب سے ممکن، تیجسونی، مشن یوتھ، پی ایم ای جی پی اور آر ای جی پی جیسی اسکیمیں ضرور قابلِ تحسین ہیں، لیکن یہ عارضی ریلیف فراہم کرتی ہیں اور پائیدار روزگار کی ضمانت نہیں دیتیں۔جموں و کشمیر میں سرکاری ملازمتوں پر انحصار ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔ نجی شعبے کو فروغ دینے کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنا ہوگا، تاکہ مستحکم اور دیرپا روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ کمپنیوں کو مراعات دینے، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور روزگار کے تحفظ کے قوانین کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تنخواہوں میں تفاوت کو ختم کرنے کے لیے ایک جامع پالیسی بھی متعارف کرانی چاہیے، تاکہ نجی شعبے میں کام کرنے والے افراد کو بھی منصفانہ اجرت مل سکے۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020 کے تحت ہنر پر مبنی کورسز کو فروغ دینے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے، لیکن جموں و کشمیر میں اس پر عمل درآمد کی رفتار سست ہے۔ موجودہ مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق تکنیکی اور پیشہ ورانہ تربیت فراہم کرنا بے روزگاری کو کم کرنے کا مو¿ثر ذریعہ بن سکتا ہے۔ نوجوانوں کو جدید ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، ہنر مند کاریگری اور دیگر شعبوں میں تربیت دے کر انہیں خود روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکتے ہیں۔اگرچہ حکومت نے مشن ی±ووا کے تحت1.35 لاکھ کاروباری یونٹس کے قیام کا اعلان کیا ہے، لیکن یہ اہم ہے کہ اس منصوبے کو صرف اعلانات تک محدود نہ رکھا جائے۔ پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد کے بغیر کوئی بھی منصوبہ مو¿ثر ثابت نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شفافیت اور جوابدہی کے اصولوں کو اپناتے ہوئے منصوبوں کی نگرانی کرے۔
ایسے میں حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ قومی تعلیمی پالیسی کے تحت ہنر پر مبنی کورسز کے فروغ پر خصوصی توجہ دے۔ نوجوانوں کو جدید مہارتیں سکھا کر انہیں مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ کے لیے تیار کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے میں ملازمتوں کی پختگی کو یقینی بنانے کے لیے قانون سازی کی جائے اور تنخواہوں میں تفاوت کو دور کرنے کے لیے مو¿ثر قوانین کا نفاذ کیا جائے۔شفافیت اور جوابدہی کو برقرار رکھتے ہوئے تمام حکومتی اسکیموں کی نگرانی بھی انتہائی ضروری ہے تاکہ فنڈز کا درست استعمال یقینی بنایا جا سکے۔ علاقائی صنعتوں اور دستکاری کو فروغ دینا بھی بے روزگاری سے نمٹنے کا ایک مو¿ثر طریقہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ صرف نمائشی تقریبات اور روزگار میلوں پر انحصار کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرے۔ مقامی صنعتوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے، ہنر مند کاریگروں کی تربیت اور ان کے تیار کردہ مصنوعات کی مارکیٹ تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے جامع منصوبہ بندی کی جائے۔اگر حکومت سنجیدگی سے ان اقدامات کو عملی جامہ پہناتی ہے تو نہ صرف بے روزگاری کی شرح میں کمی آئے گی بلکہ خطے میں معاشی استحکام بھی ممکن ہوگا۔ نوجوانوں کو روزگار کے بہتر مواقع ملیں گے اور جموں و کشمیر کی مجموعی ترقی میں بھی نمایاں بہتری آئے گی۔
