حکومت کی جانب سے صحت عامہ کی سہولتوں کو یقینی بنانے کے لیے متعارف کرایا گیا گولڈن کارڈ ایک اہم قدم تھا، جس کا مقصد معاشی طور پر کمزور طبقے کو معیاری طبی سہولیات فراہم کرنا تھا۔ یہ اسکیم بنیادی طور پر آیوشمان بھارت پردھان منتری جن آروگیہ یوجنا کا حصہ تھی، جسے عوام کو مفت علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لیے متعارف کرایا گیا۔ اس کے ذریعے مستحق افراد کو سرکاری اور نجی اسپتالوں میں علاج کی سہولت دی جاتی، اور وہ مہنگے علاج کے اخراجات سے محفوظ رہتے۔یہ اسکیم جموں و کشمیر کے شہریوں کے لیے خاص طور پر اہم تھی، کیونکہ اس کے تحت ہر شہری کو سالانہ 5لاکھ روپے تک کا ہیلتھ انشورنس کور فراہم کیا جاتا ہے۔ اس سہولت کے ذریعے لاکھوں غریب اور متوسط طبقے کے افراد کو معیاری طبی خدمات میسر آئیں، جو عام طور پر مہنگے نجی اسپتالوں میں علاج کرانے کے قابل نہیں ہوتے۔ اس کارڈ کے حامل افراد کو اسپتال میں داخل ہونے سے پہلے کے تین دن اور بعد کے پندرہ دنوں کے اخراجات بھی دیے جاتے ہیں، جس میں تشخیص اور ادویات شامل ہیں۔ یہ اسکیم نہ صرف مریضوں کے لیے سہولت کا باعث بنی بلکہ صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔حکومت نے گولڈن کارڈ کو زیادہ سے زیادہ شہریوں تک پہنچانے کے لیے آن لائن رجسٹریشن اور ڈاو¿ن لوڈ کی سہولت بھی فراہم کی ہے۔ شہری آن لائن خود کو رجسٹر کر کے اپنے گولڈن کارڈ حاصل کر سکتے ہیں،جو اب بند ہوچکا ہے۔
اس کے علاوہ، ریاستی صحت ایجنسی نے اگست کے آخر تک صد فیصد ہدف حاصل کرنے کے لیے گھر گھر جا کر ایک مہم بھی شروع کی ہے تاکہ ہر مستحق شہری تک یہ سہولت پہنچائی جا سکے۔ خاص طور پر ایسے دیہی اور دور دراز علاقے جہاں موسمی رکاوٹوں کی وجہ سے لوگ طبی سہولیات سے محروم رہتے ہیں، وہاں بھی یہ اسکیم امید کی کرن بن کر ابھری۔لیکن گزشتہ تین روز سے سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے اس کارڈ کو تسلیم نہ کرنا ایک تشویشناک صورتحال ہے، جس نے نازک حالت میں مبتلا مریضوں کو غیر یقینی صورت حال میں ڈال دیا ہے۔ اسپتال انتظامیہ کی جانب سے کسی سرکاری اعلامیے یا وضاحت کے بغیر کارڈ کو مسترد کرنا بدانتظامی اور ناقص حکمت عملی کی نشاندہی کرتا ہے۔ مریضوں کو مفت علاج کی سہولت سے محروم کرنا کسی انسانی المیے سے کم نہیں، کیونکہ ایسے افراد جو اپنی زندگی بچانے کے لیے اس کارڈ پر انحصار کر رہے تھے، اب وہ مہنگے علاج کے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں۔حکومت کی خاموشی نے اس معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اگر کارڈ کو معطل کرنے کی کوئی تکنیکی یا مالی وجوہات ہیں، تو حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر عوام کو اعتماد میں لے اور اس مسئلے کا کوئی متبادل حل نکالے۔ صحت جیسی بنیادی سہولت کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے معطل کر دینا ایک غیر ذمہ دارانہ اقدام ہے، جو نہ صرف عوام کی مشکلات میں اضافہ کرے گا بلکہ حکومت کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچائے گا۔
یہ صورتحال نہ صرف پریشان کن ہے بلکہ یہ اس منصوبے پر ایک سوالیہ نشان بھی کھڑا کرتی ہے۔ عوامی دباو¿ اور میڈیا کے ذریعے اس معاملے کو اجاگر کرنا ناگزیر ہو گیا ہے تاکہ حکومت فوری ایکشن لے اور اس سہولت کی بحالی کو یقینی بنائے۔ شہریوں کو چاہیے کہ وہ اس ناانصافی کے خلاف اپنی آواز بلند کریں اور متعلقہ حکام سے جواب طلب کریں۔دوسری جانب، حکومت کو بھی اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اس اسکیم کے تحت دی جانے والی طبی سہولیات بغیر کسی تعطل کے جاری رہیں۔ اگر اسپتالوں کو گولڈن کارڈ قبول نہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں، تو ان کے پیچھے وجوہات عوام کے سامنے لائی جائیں اور اس مسئلے کو فوری طور پر حل کیا جائے۔ ریاستی صحت ایجنسی کو چاہیے کہ وہ فوری تحقیقات کرے اور تمام اسپتالوں کو گولڈن کارڈ کے تحت علاج جاری رکھنے کی ہدایات جاری کرے۔صحت کسی بھی شہری کا بنیادی حق ہے، اور گولڈن کارڈ جیسی سہولت کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے معطل کرنا ایک غیر منصفانہ عمل ہے۔ اس اسکیم نے لاکھوں افراد کو فائدہ پہنچایا ہے، اور اگر اس پر کوئی مسئلہ درپیش ہے تو حکومت کو چاہیے کہ وہ شفافیت کے ساتھ عوام کو اعتماد میں لے اور اس کا فوری حل نکالے۔عوام اور میڈیا کا کردار اس وقت نہایت اہم ہے، کیونکہ اگر اس معاملے کو دبایا گیا تو لاکھوں مریض علاج کی سہولت سے محروم ہو جائیں گے۔ حکومت، متعلقہ ادارے اور اسپتال انتظامیہ کو مل کر فوری طور پر اس بحران کا حل نکالنا ہوگا تاکہ مریضوں کو دربدر کی ٹھوکریں کھانے سے بچایا جا سکے۔
