عید محض ایک تہوار نہیں، بلکہ یہ خوشیوں، محبتوں اور اخوت کا پیغام ہے۔ یہ دن جہاں مسلمانوں کے لیے اللہ کے انعامات اور رحمتوں کی علامت ہے، وہیں یہ ہمیں ایک بڑی ذمہ داری کا بھی احساس دلاتا ہے کہ ہم ان لوگوں کو نہ بھولیں جو معاشی مشکلات، غربت اور بے بسی کا شکار ہیں۔ عید کی اصل روح اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب اس خوشی میں وہ افراد بھی شامل ہوں جو اپنی مالی مشکلات کی وجہ سے عید کی روایتی خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔لفظ’عید‘ عربی زبان سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ہیں ’لوٹنے والی خوشی‘۔ اسلامی روایات کے مطابق، عید ایک ایسا دن ہے جب اللہ اپنے بندوں کو اجر و انعام سے نوازتا ہے اور روزے داروں کی عبادات و ریاضات کا صلہ عطا کرتا ہے۔ رمضان المبارک کی عبادات اور تزکیہ نفس کے بعد عید الفطر خوشی، انعام، اور شکر گزاری کا دن ہے۔ لیکن اس خوشی کا حقیقی مطلب صرف اپنے لیے مسرتیں سمیٹنا نہیں بلکہ دوسروں کے ساتھ بانٹنا ہے۔رمضان المبارک کے روزے ہمیں نہ صرف ضبطِ نفس اور تقویٰ کا درس دیتے ہیں بلکہ محتاجوں، مساکین اور ضرورتمندوں کے حالات کو سمجھنے کا بھی موقع فراہم کرتے ہیں۔جب ہم سحری اور افطاری کے وقت بھوک اور پیاس کی شدت محسوس کرتے ہیں تو ہمیں ان لوگوں کی حالت کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو غربت کی چکی میں پس رہے ہیں اور جنہیں دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے نصیب ہوتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے روزے کو صرف عبادت تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے ذریعے ہمیں معاشرتی ذمہ داریوں کا بھی احساس دلایا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ رمضان میں زکوٰة، صدقات اور فطرانے کی ادائیگی کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ معاشرے کے کمزور طبقے کو سہارا دیا جا سکے۔ عید الفطر اسی فلسفے کی عملی تصویر ہے، جس میں ہمیں دوسروں کے ساتھ اپنی خوشیاں بانٹنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو سماجی مساوات اور انصاف پر زور دیتا ہے۔ ہمارے ارد گرد بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو غربت کی وجہ سے عید کی خوشیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ بے سہارا یتیم بچے، ضعیف اور بیمار افراد، بیوائیں اور دیگر محتاج افراد بھی ہماری توجہ کے مستحق ہیں۔رسول اکرم ﷺ نے ہمیں بار بار تاکید کی کہ یتیموں کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آئیں۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے: ”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں قریب قریب ہوں۔“(بخاری)۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت مندوں کی مدد کرنا نہ صرف ایک معاشرتی فرض ہے بلکہ یہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
عید کے موقع پر ہمیں چاہیے کہ اپنے ارد گرد ان لوگوں کو تلاش کریں جو مالی مشکلات کی وجہ سے نئے کپڑے، اچھا کھانا اور دیگر ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔ اپنے پڑوسیوں، عزیز و اقارب اور محلّے کے غریب افراد کا خاص خیال رکھیں۔ اگر ممکن ہو تو کسی یتیم خانے یا فلاحی ادارے کا دورہ کریں اور وہاں کے بچوں کے ساتھ وقت گزاریں، انہیں تحائف دیں اور ان کی دلجوئی کریں۔شریعت میں عید الفطر کے موقع پر فطرانہ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے تاکہ معاشرے کے محروم طبقے کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کیا جا سکے۔ فطرانے کی رقم مقررہ وقت پر ادا کرنی چاہیے تاکہ ضرورت مند اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور عید کے دن ان کے چہروں پر بھی خوشی کی چمک آ سکے۔ اسی طرح، صدقات اور خیرات کے ذریعے ہم بے شمار ضرورت مندوں کی مدد کر سکتے ہیں۔عید صرف ہمارے لیے خوشی کا موقع نہیں بلکہ ایک امتحان بھی ہے کہ ہم اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر شکر ادا کرتے ہوئے انہیں دوسروں کے ساتھ کس حد تک بانٹتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ عید کی حقیقی روح کو سمجھیں اور اپنی خوشیوں میں ان لوگوں کو بھی شریک کریں جو محتاج اور ضرورت مند ہیں۔ یہی اسلام کا اصل پیغام اور ہماری معاشرتی ذمہ داری ہے۔ جب ہم دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں گے، تبھی حقیقی خوشی اور سکون ہمارے نصیب میں آئے گا۔
