بدھ, مئی ۱۴, ۲۰۲۵
20.1 C
Srinagar

کاغذی کارروائیاں ۔۔۔۔

رمضان عبادت، قربانی اور برکت کا مہینہ ہے، لیکن ہمارے بازاروں میں یہ مہینہ سب سے زیادہ دھوکہ دہی، ملاوٹ اور ناقص خوراک کی فروخت کا سیزن بن چکا ہے۔ جیسے ہی سحری و افطار کی تیاریوں میں اضافہ ہوتا ہے، منافع خوروں کی سرگرمیاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ عوام صحت بخش خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں، لیکن ان کے ہاتھ کیا آتا ہے؟ دو نمبر دودھ، غیر معیاری مشروبات، مصنوعی رنگوں میں ڈوبے پکوان، گلی سڑی سبزیاں، زائد المیعاد اجناس اور کیمیکل سے تیار شدہ مضر صحت کھانے۔ نتیجہ؟ فوڈ پوائزننگ، معدے کی بیماریاں، بچوں کی صحت پر خطرناک اثرات، اور ایک ایسا معاشرہ جو روزانہ زہر کھانے پر مجبور ہے۔یہ مسئلہ ایک دن یا ایک سال کا نہیں، بلکہ ایک منظم دھندہ ہے، جو دہائیوں سے جاری ہے۔ ہر سال فوڈ اتھارٹی کے چھاپے، جرمانے اور کارروائیوں کی خبریں آتی ہیں۔ دکانیں سیل ہوتی ہیں، فوٹیجز جاری کی جاتی ہیں، ناقص اشیاءضبط یا ضائع کی جاتی ہیں، لیکن اگلے دن وہی کاروبار دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔ تو کیا یہ سب کچھ صرف ایک رسمی کارروائی ہے؟
اگر واقعی فوڈ اتھارٹی سنجیدہ ہوتی تو آج ملاوٹ مافیا کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ اگر جرمانے اتنے موثر ہوتے تو ناقص خوراک بازار میں دستیاب ہی نہ ہوتی۔ اگر قوانین واقعی سختی سے لاگو کیے جا رہے ہوتے تو آج کوئی بھی دکاندار اپنی دوکان پر زہر بیچنے کی ہمت نہ کرتا۔ لیکن زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے۔ منافع خوروں کے حوصلے بلند ہیں، اور قانون کا شکنجہ کمزور!یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قصور کس کا ہے؟ کیا قوانین کمزور ہیں؟ کیا عملدرآمد ناقص ہے؟ یا کہیں ہم خود بھی اس گھناونے کاروبار کا حصہ بن چکے ہیں؟ ذمہ داری حکومت کی بھی ہے! کیونکہ وہ قانون سازی کر سکتی ہے، سخت سزائیں دے سکتی ہے، اور ایسے اقدامات کر سکتی ہے جو ملاوٹ مافیا کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ ذمہ داری فوڈ اتھارٹی کی بھی ہے! کیونکہ اگر وہ اپنی کارروائیوں کو صرف کیمروں تک محدود رکھے گی، تو یہ صرف ایک دکھاوا بن کر رہ جائے گا۔ انسپکٹرز کو چوکنا اور ایماندار ہونا ہوگا، اور ان پر بھی سخت چیک اینڈ بیلنس ہونا چاہیے تاکہ وہ خود کسی کرپشن یا ملی بھگت کا شکار نہ ہوں۔ ذمہ داری عوام کی بھی ہے! کیونکہ جب تک عوام خود غیر معیاری اشیائ خریدنا بند نہیں کریں گے، جب تک وہ اپنی آواز بلند نہیں کریں گے، جب تک وہ اپنی صحت کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہوں گے، اس وقت تک یہ کاروبار جاری رہے گا۔ ہم میں سے اکثر جانتے بوجھتے ہوئے بھی ان دکانوں سے خریداری کرتے ہیں جن کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ غیر معیاری اشیاءفروخت کرتے ہیں۔
حکومت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ملاوٹ کرنے والوں کو صرف جرمانے لگا دینا کافی نہیں، بلکہ ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرنا ضروری ہے۔ قوانین تو موجود ہیں، مگر جب تک ان پر سنجیدگی، سختی اور ایمانداری سے عملدرآمد نہیں ہوگا، تب تک یہ مسئلہ ختم نہیں ہوگا۔یہ معاملہ کسی معمولی بے ضابطگی کا نہیں، بلکہ براہِ راست انسانی جانوں سے کھیلنے کا ہے! اگر حکومت واقعی عوام کی صحت کے بارے میں سنجیدہ ہے، تو اسے صرف چھاپوں سے آگے بڑھ کر سخت سزائیں اور عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ ورنہ یہ زہر اسی طرح ہمارے دسترخوانوں پر بکتا رہے گا، اور ہم سب خاموشی سے اسے کھانے پر مجبور رہیں گے۔فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے: کیا آپ اسی طرح ملاوٹ شدہ خوراک کھاتے رہیں گے، یا اس کے خلاف آواز بلند کریں گے؟

 

 

 

Popular Categories

spot_imgspot_img