منگل, مارچ ۲۵, ۲۰۲۵
15.9 C
Srinagar

ذہنی کوفت کے نئے دروازے۔۔۔۔

وادی کشمیر میں ٹریفک نظام کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ اگر آپ کا دماغ بالکل پرسکون ہے اور آپ زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل پر زیادہ غور نہیں کرتے، تو ایک بار یہاں کی سڑکوں پر نکل کر ٹریفک کا تجربہ ضرور کریں۔یقین مانیں، ذہنی کوفت کے نئے دروازے کھل جائیں گے!کہنے کو تو یہاںکا ٹریفک نظام جدید خطوط پر استوار ہو چکا ہے۔ای۔چالان، ریڈ سگنل، کیمرے، اور دیگر اصلاحات کا طوفان ایسے آیا کہ لگا، بس اب سڑکوں پر وہی چلے گا جو قانون کا تابع ہوگا۔ مگر افسوس، معاملہ’دیکھنے میں سب اچھا‘کے سوا کچھ نہیں!یہاں کے مسافروں کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ نہیں کہ سڑکوں پر ٹریفک جام ہوتا ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ جس روٹ پر روزانہ سفر کرتے ہیں، وہی روٹ کب اچانک بدل دیا جائے، اس کی کوئی گارنٹی نہیں! کوئی پیشگی اطلاع نہیں، کوئی عوامی آگاہی نہیں، بس اچانک ایک نیا قانون، اور پھر شہری اپنی قسمت کو کوستے ہوئے کسی اور گلی، کسی اور راستے کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔راستے کی ترتیب ایسے بدل دی جاتی ہے جیسے رات کے سناٹے میں کسی نے چپکے سے آپ کا نقشہ بدل دیا ہو۔ گاڑی میں سفر شروع کرتے ہی اچانک پتا چلتا ہے کہ آپ کا سابقہ پسندیدہ روٹ آج غیر متوقع موڑ اختیار کر چکا ہے۔بغیر کسی پیشگی اطلاع کے! اس بے ترتیب تبدیلی کا سامنا کرتے ہوئے، ہر ڈرائیور کو ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک غیر متوقع رومانی ناول کا ہیرو بن گیا ہو، جس کی کہانی میں ہر صفحے پر ایک نیا معمہ منتظر ہو۔
کشمیر میں یوٹرن لینا ایک سادہ عمل نہیں، بلکہ ایک ذہنی آزمائش ہے۔ بعض جگہوں پر یوٹرن لینا منع، تو بعض جگہوں پر اتنے یوٹرنز کہ مسافر خود چکرا جائیں! کہیں ٹریفک پولیس کے احکامات، کہیں سیکیورٹی وجوہات، اور کہیں کسی نامعلوم حکمتِ عملی کے تحت اچانک سڑکیں بند کر دی جاتی ہیں۔ اور وی آئی پی حضرات کے لیے؟ ارے بھئی، ان کے لیے تو کوئی رکاوٹ ہے ہی نہیں، ان کے قافلے ایسے گزرتے ہیں جیسے سڑک ان کی جاگیر ہو، اور عام لوگ محض راہگیر۔سوال یہ ہے کہ اگر جدید نظام واقعی عوام کی سہولت کے لیے بنایا گیا ہے، تو عوام کو صرف مشکلات ہی کیوں مل رہی ہیں؟ جب بھی کوئی نیا روٹ متعارف کرایا جائے، یا کوئی پرانا بند کیا جائے، تو کیا یہ ضروری نہیں کہ عوام کو بروقت آگاہ کیا جائے؟ یا شاید حکام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ’حیران رہنا‘بھی زندگی کا ایک اہم حصہ ہے!
ٹریفک کو صحیح معنوں میں جدید بنانے کے لیے صرف کیمرے اور چالان کافی نہیں۔ روٹ مینجمنٹ کا ایک واضح نظام بنایا جائے، جہاں عوام کو بروقت معلومات ملیں، تاکہ وہ ذہنی دباو¿ کا شکار نہ ہوں۔ ٹریفک کی رکاوٹیں عام لوگوں کے لیے سزا نہ بنیں، بلکہ ان کے مسائل کو حل کیا جائے۔ اگر واقعی عوام کے لیے ٹریفک نظام کو بہتر بنانا ہے، تو یہ ’اندھیرے میں گاڑی چلانے‘والا رویہ بدلنا ہوگا۔ روٹ میں تبدیلی ہو، تو عوام کو بروقت بتایا جائے۔ یوٹرن اور راستے بند کرنے کے فیصلے زمینی حقائق دیکھ کر کیے جائیں، نہ کہ کسی افسر کی میز پر بیٹھ کر۔ اگر یہ سب ممکن ہو گیا، تو شاید ایک دن کشمیر کے شہری بھی کہہ سکیں گے:’چلو، آج کا سفر سکون سے گزرا!‘

Popular Categories

spot_imgspot_img