بدھ, جولائی ۹, ۲۰۲۵
19.3 C
Srinagar

تعلیم ،تربیت اور بچوں کا مستقبل ۔۔۔۔۔

وادی میں طویل سرمائی چھٹیوں کے بعد دوبارہ اسکول کھل رہے ہیں، اور بچوں نے بھی اس حوالے سے تمام تیاریاں کی ہیں۔ چھٹیوں کے بعد پہلے دن اسکول جانے میں بچے ماضی قدیم میں بہت زیادہ خوش ہوتے تھے کیونکہ مہینوں بعد وہ اپنے کلاس کے ساتھیوں، اساتذہ اور دیگر بچوں سے ملاقات کرتے تھے۔ کیونکہ ان دنوں نہ ہی موبائل کا زمانہ تھا اور نہ ہی انٹرنیٹ۔ سردیاں بھی اس قدر شدید ہوتی تھیں کہ لوگ گھروں سے زیادہ باہر نہیں نکلتے تھے۔جہاں تک ٹرانسپورٹ کا تعلق ہے، وہ بھی بہت کم تھا اور ہر کسی کے پاس اپنی گاڑی نہیں ہوتی تھی، نہ ہی بچوں کے پاس سائیکل، موٹر سائیکل، اور اسکوٹیاں ہوتی تھیں جیسے کہ آج کل تقریباً اکثر بچوں کے پاس ہوتی ہیں۔ چھٹیوں کے بعد اسکول کا پہلا دن واقعی بچوں کے لیے ایک خوشی کا دن ہوتا تھا، اور بچے کئی دن قبل اس حوالے سے تیاری میں لگ جاتے تھے کہ انہیں اسکول جانا ہے۔ہر صبح و شام جب بچے قطاروں میں اپنے اپنے اسکول یا گھروں کی جانب جاتے تھے تو ایک عجیب سا منظر دیکھنے کو ملتا تھا۔ رنگ برنگے پھولوں کی طرح شہر و دیہات کی سڑکیں، گلیاں، اور کوچے نظر آتے تھے کیونکہ ان بچوں کو پیدل چلنا پڑتا تھا اور اسکول گاڑیوں کا رواج یا چلن نہ تھا۔ ان بچوں کی خوب ورزش ہوتی تھی روز صبح و شام پیدل چلنے سے۔
بہار کی آمد ہوتی تھی، تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ اساتذہ کرام بچوں کی توجہ ماحولیات کی جانب بھی مبذول کراتے تھے۔ ہر ایک بچے کو گھر سے ایک پودا لانا ہوتا تھا اور اسکول کے اردگرد لگانا ہوتا تھا تاکہ تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اردگرد کا ماحول بھی بہتر ہو جائے۔ بچے بھی گرمیوں کے ایام میں ان پیڑ پودوں کی چھاوں میں بیٹھتے تھے۔بہرحال، زمانے نے کروٹ بدلی۔ آج کے بچے چھٹیوں کے باوجود بھی ایک دوسرے کے ساتھ جڑے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور موبائل کے علاوہ کوچنگ سینٹرز میں بھی ان بچوں کا میل جول ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ آج کے بچوں کو نہ حقیقی معنوں میں چھٹیاں ملتی ہیں اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی جسمانی مشقت یا ورزش کا موقع ملتا ہے۔چمچوں سے کھانے والے یہ بچے ذہنی طور پر بہت تیز ہوتے ہیں کیونکہ انہیں ماں کی گود میں ہی موبائل فون کے ذریعے وہ سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے جو پرانے وقتوں میں دسویں جماعت کے بچے کو بھی معلوم نہیں ہوتا تھا۔ جہاں تک جسمانی طور پر ان بچوں کا تعلق ہے، وہ بہت کمزور اور نحیف ہوتے ہیں کیونکہ انہیں کھیل کود کے مواقع فراہم نہیں کیے جاتے۔ والدین انہیں اپنے اردگرد کے بچوں کے ساتھ کھیلنے نہیں دیتے کیونکہ انہیں اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ نہ جانے بچہ کس بری لت میں مبتلا ہو جائے۔
اکثر والدین بچوں کو کتابوں میں ہی دن رات مشغول رکھنے میں اپنی خیریت سمجھتے ہیں کیونکہ آج کے والدین کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ان کا بچہ امتحان میں اچھے نمبرز حاصل کر سکے۔ ان والدین کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ ہر انسان کو اپنی تقدیر کے مطابق منزل اور مقام ملتا ہے۔ہم والدین سے ہرگز یہ نہیں کہیں گے کہ وہ اپنے بچوں کو کتابوں میں مشغول رکھنے سے دور رکھیں یا وہ اچھی تعلیم حاصل نہ کریں۔ ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں بلکہ والدین کے لیے ہمارا پرخلوص مشورہ یہ ہے کہ وہ بچوں کو کتابوں کے ساتھ مشغول رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں حقیقی زندگی کے اتار چڑھاو بھی سکھائیں۔ بچوں میں کھیل کود کی عادت ڈالیں، انہیں پیدل چلنے کی ترغیب دیں، اور انہیں ہرگز پولٹری کے چوزے نہ بنائیں۔انہیں مروجہ تعلیم کے ساتھ ساتھ بہتر زندگی گزارنے کے گر سکھائیں، ان میں بچپن سے ہی محنت و مشقت کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ وہ ذہنی و جسمانی طور پر مضبوط بن سکیں اور بڑے ہو کر اپنے گھر، وطن، اور ملک کے لیے کچھ بہتر کر سکیں۔ یہی خوشحال زندگی کا راز ہے، جسے پانے کے لیے دنیا کے بڑے بڑے لوگوں نے محنت و مشقت کی ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img