ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں بھی مہا شیو یاترا کا تہوار نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ وادی کی نسبت جموں میں اس موقع پر زبردست چہل پہل رہی۔ کشمیر پنڈتوں نے نہ صرف مندروں میں جا کر رات بھر پوجا پاٹ کی بلکہ گھروں میں بھی کشمیری پنڈت برادری نے پوجا پاٹ کر کے اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ تین دہائیوں قبل جب مہا شیو یاترا یعنی” ہیرت “کا دن آتا تھا تو ہفتہ بھر وادی کے بازاروں، شہروں اور دیہات میں زبردست گہماگہمی رہتی تھی۔ کشمیر پنڈت مختلف چیزوں کی خریداری میں مصروف رہتے تھے اور کشمیری مسلمان پنڈتوں کے گھروں جا کر انہیں مبارک باد پیش کرتے تھے اور وہاں سے پانی میں بگئے اخروٹ بطور تحفہ لیتے تھے۔ بہت سارے پنڈت اس دن اپنے مسلمان ہمسایوں اور دوستوں کو دعوت پر بلاتے تھے اور اس دوران انہیں قسم قسم کے سالن پیش کرتے تھے۔ ٹھیک اسی طرح مسلم برادری کے لوگ بھی عیدین پر اپنے پنڈت دوستوں اور ہمسایوں کو دعوت کھلاتے تھے۔
دنیا میں وادی ہی ایک ایسی منفرد جگہ تھی جہاں اس طرح کا آپسی بھائی چارہ اور مذہبی رواداری کا عنصر دیکھنے کو ملتا تھا۔ بدقسمتی سے 1990 میں شروع ہونے والی ملی ٹنسی کے دوران کشمیری پنڈتوں کو اپنا گھر بار، زمین جائداد چھوڑنی پڑی اور بہت سارے پنڈتوں کو برسوں تک کسمپری کی زندگی گزارنی پڑی۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ملی ٹنسی کے ان پ±رتشدد ایام میں وادی کے مسلمانوں اور سکھ برادری کے لوگوں کو بھی مسائب و مشکلات جھیلنی پڑی۔ ان پ±رتشدد حالات میں نہ صرف اہل وادی کو جانی و مالی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ یہاں امن و امان قائم کرنے والے فوجی اور سی آر پی اہلکاروں کو بھی اپنی جانیں گنوانی پڑی۔ بہر حال مرکزی حکومت اور وطن پرست لوگوں کی انتھک کوششوں کی بدولت وادی میں بہت حد تک امن و امان کا ماحول قائم ہوا، تشدد کا خاتمہ ہوا اور لوگ بغیر کسی خوف و ڈر کے اپنا کام کاج دوبارہ سے شروع کرنے لگے۔ بچے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں حسب سابقہ جانے لگے اور سب لوگ پھر سے خوشحال زندگی گزارنے لگے۔ لیکن تین دہائیوںقبل جو مذہبی بھائی چارہ اور آپسی رواداری دیکھنے کو ملتی تھی، وہ اب نظر سے اوجھل ہو چکی ہے۔ کشمیری پنڈتوں اور مسلمانوں کے بڑے دنوں اور مذہبی تہواروں میں مل جل کر شامل ہونا، ایک ساتھ گھروں میں کھانا پینا اور ایک دوسرے کے گھر جا کر آپس میں مبارک باد پیش کرنا، اس سب کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ اب جبکہ کچھ پنڈت اپنے اپنے آبائی گھروں میں واپس آچکے ہیں، لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔ کچھ لوگ سرکاری ملازمت کے بہانے یہاں رہتے ضرور ہیں لیکن وہ بھی اپنا تہوار منانے کے لیے جموں جاتے ہیں۔ اگرچہ کشمیری پنڈتوں اور مسلمانوں کے درمیان وہ پرانا محبت اور بھائی چارے کا جذبہ ابھی بھی موجود ہے، لیکن پھر بھی کہیں نہ کہیں دوریوں کا احساس ہو رہا ہے۔
اگرچہ اس حوالے سے سرکاری سطح پر کام ہو رہا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کی گھر واپسی ہو جائے، لیکن کچھ لوگ جان بوجھ کر اس مشن میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ حال ہی میں میر واعظ کشمیر ڈاکٹر مولوی محمد عمر فاروق نے دہلی اور جموں میں کشمیر پنڈتوں سے بات کی اور انہیں اپنے آبائی وطن واپس آنے کی دعوت دی، لیکن یہ تب تک ممکن نہیں جب تک کہ عام لوگ اپنی تہذیب، تمدن، اخوت اور مذہبی بھائی چارے کو پوری طرح نہ سمجھ سکیں اور ایک دوسرے سے نفرت کرنا نہ چھوڑ دیں۔ تعصب کی عینک سے ا±تار نہ دیں، تب تک کام نہیں بن سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وادی کے بزرگ مسلمان اور کشمیر پنڈت ایک دوسرے کے قریب آ کر اپنی نوجوان نسل کو ایک دوسرے کے قریب لائیں اور انہیں کشمیر اور کشمیریت کے بارے میں آگاہ کریں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان لوگوں کو پلیٹ فارم فراہم کرے جو اس طرح کے کام میں یقین رکھتے ہیں۔ تب جا کر ہیرت اور عید جیسے مذہبی تہوار اہل کشمیر ایک ساتھ منا سکیں گے جس کا فقدان نظر آ رہا ہے۔
