مختار احمد قریشی۔
محبت اور عقل دو ایسے جذباتی و فکری عناصر ہیں جو اکثر ایک دوسرے کے مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ محبت ایک غیر مشروط، جذباتی اور دل کی گہرائیوں سے محسوس کی جانے والی کیفیت ہے، جبکہ عقل ایک منطقی، محتاط اور حقیقت پسندانہ طرزِ فکر کا نام ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں ایک ساتھ چل سکتے ہیں یا نہیں؟
محبت کا تعلق انسانی جذبات اور احساسات سے ہوتا ہے، جو اکثر عقلی فیصلوں کو پس پشت ڈال دیتی ہے۔ جب انسان محبت میں گرفتار ہوتا ہے، تو وہ بعض اوقات ایسے فیصلے کر بیٹھتا ہے جو عقلی طور پر درست نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ محبت کو اندھا کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ جذبات کی شدت میں عقل کی راہ کو دھندلا دیتی ہے۔ ایک شخص جس سے محبت کی جاتی ہے، اس کی خامیوں کو بھی محبت کرنے والا نظر انداز کر دیتا ہے، حالانکہ ایک عقلی انسان کو اس پر غور کرنا چاہیے۔
دوسری طرف، اگر محبت میں عقل شامل نہ ہو تو یہ بعض اوقات انتہائی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ بے قابو جذباتی فیصلے، تعلقات میں عدم توازن، اور حقیقت پسندی کا فقدان ایسی صورتحال پیدا کر سکتا ہے جو نہ صرف محبت بلکہ زندگی کے دیگر پہلوؤں پر بھی منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ مثلاً، بعض اوقات لوگ محبت میں آ کر اپنا کیریئر، عزت، یا دیگر اہم معاملات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں، جو بعد میں پچھتاوے کا سبب بنتے ہیں۔
تاہم، اگر محبت کو عقل کے ساتھ متوازن کر لیا جائے، تو یہ ایک صحت مند اور دیرپا تعلق کی بنیاد بن سکتی ہے۔ محبت میں اگر سمجھداری، حقیقت پسندی، اور باہمی عزت شامل ہو تو یہ مضبوط اور دیرپا رشتہ بن سکتا ہے۔ عقلی سوچ محبت کو ناپائیداری سے بچاتی ہے اور اسے ایک مثبت اور مستحکم رشتے میں تبدیل کر سکتی ہے۔ عقل ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہم اپنی ذات کی قربانی دیے بغیر بھی محبت کو نبھا سکتے ہیں اور ایک ایسے رشتے کی بنیاد رکھ سکتے ہیں جو نہ صرف جذباتی طور پر مضبوط ہو بلکہ عملی زندگی میں بھی کامیاب ثابت ہو۔کے محبت اور عقل کے درمیان توازن پیدا کرنا ہی اصل کامیابی ہے۔ اگر محبت کو صرف جذبات کے سہارے چھوڑ دیا جائے تو یہ دھوکہ اور تکلیف کا باعث بن سکتی ہے، اور اگر محض عقل کے تحت رکھی جائے تو اس میں جذبات کی وہ گہرائی اور شدت باقی نہیں رہتی جو محبت کو خوبصورت بناتی ہے۔ ایک کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان محبت کرے، مگر عقل کے دائرے میں رہ کر کرے۔
محبت اور عقل ایک ساتھ چل سکتے ہیں، بشرطیکہ ان کے درمیان توازن رکھا جائے۔ اگر محبت بے قابو ہو تو یہ اندھی ہو جاتی ہے، اور اگر عقل بے لچک ہو تو محبت میں گرمجوشی باقی نہیں رہتی۔ محبت کو جذبات کی شدت اور عقل کی روشنی دونوں کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ زندگی میں خوشگوار اور مستحکم تعلقات قائم کیے جا سکیں۔
اگر ہم محبت اور عقل کے امتزاج کو مزید گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کریں، تو یہ واضح ہوتا ہے کہ زندگی کے مختلف مراحل پر دونوں کی اہمیت یکساں ہوتی ہے۔ ابتدائی محبت اکثر جذباتی شدت اور کشش پر مبنی ہوتی ہے، مگر وقت گزرنے کے ساتھ اگر عقل اس میں شامل نہ ہو تو یہ محبت کمزور پڑ سکتی ہے۔
زندگی کے عملی پہلوؤں میں، محبت کا عقل کے ساتھ ہونا ضروری ہے، کیونکہ صرف جذباتی وابستگی ایک رشتے کو طویل مدتی کامیابی نہیں دے سکتی۔ شادی شدہ زندگی میں، مثلاً، اگر عقل نہ ہو تو چھوٹے چھوٹے اختلافات بڑے جھگڑوں میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کو سمجھنے، برداشت کرنے اور عملی زندگی کے فیصلے لینے میں عقل کا کردار بہت اہم ہے۔
اسی طرح، اگر محبت میں عقل شامل نہ ہو تو لوگ ایسے فیصلے لے سکتے ہیں جو ان کے مستقبل کو برباد کر سکتے ہیں۔ اکثر نوجوان بغیر سوچے سمجھے محبت میں شدت اختیار کر لیتے ہیں اور پھر بعد میں ان کے فیصلے ان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔ مثلاً، کئی لوگ جذبات کی رو میں بہہ کر اپنا وقت، کیریئر اور عزت داؤ پر لگا دیتے ہیں، جبکہ بعد میں احساس ہوتا ہے کہ شاید انہوں نے عقل سے کام نہیں لیا۔
عقل کا مطلب یہ نہیں کہ محبت میں جذبات کی کوئی گنجائش نہیں رہتی، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جذبات کو ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ انداز میں سمجھا جائے۔ ایک عقلمند شخص محبت میں بھی اپنی عزتِ نفس، خودداری اور زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو مدنظر رکھتا ہے۔ وہ جذبات میں بہکنے کے بجائے اپنی محبت کو ایک عملی اور مثبت سمت میں لے کر جاتا ہے۔
اس کے برعکس، اگر محبت مکمل طور پر عقل کے تابع ہو جائے اور جذباتی پہلو کو نظر انداز کر دیا جائے، تو یہ محض ایک معاہدہ بن کر رہ جاتی ہے، جس میں کوئی گرمجوشی یا گہرائی باقی نہیں رہتی۔ ایسا رشتہ وقت کے ساتھ بے جان اور خشک محسوس ہونے لگتا ہے۔
حقیقی محبت وہی ہوتی ہے جس میں عقل اور جذبات دونوں شامل ہوں۔ ایک ایسا رشتہ جس میں محبت کی مٹھاس ہو، مگر عملی زندگی کے تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا جائے۔ ایک ایسا رشتہ جو نہ صرف جذباتی تسکین دے بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں ایک دوسرے کا سہارا بھی بنے۔
محبت اور عقل کو ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کا تکمیل کرنے والا سمجھنا چاہیے۔ اگر محبت میں عقل شامل ہو تو یہ ایک کامیاب اور مستحکم رشتے میں تبدیل ہو سکتی ہے، اور اگر عقل میں محبت کی مٹھاس شامل ہو تو زندگی خوشگوار اور معنی خیز ہو جاتی ہے۔ اصل کامیابی اسی میں ہے کہ ہم محبت اور عقل کے درمیان ایسا توازن پیدا کریں جو ہماری زندگی کو نہ صرف خوشیوں سے بھر دے بلکہ ہمیں عملی زندگی میں بھی کامیاب بنا سکے۔
جب ہم محبت اور عقل کے امتزاج کو مزید گہرائی میں دیکھتے ہیں تو یہ سمجھنا ضروری ہو جاتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے تکمیلی پہلو ہیں۔ زندگی میں کامیاب تعلقات کے لیے ان دونوں کا متوازن امتزاج انتہائی ضروری ہے۔
محبت میں عقل کا کردار
عقل محبت کو استحکام فراہم کرتی ہے۔ اگر محبت کو محض جذباتی تسکین کے طور پر لیا جائے اور اس میں دور اندیشی اور حقیقت پسندی نہ ہو، تو یہ وقتی اور غیر مستحکم ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک سمجھدار شخص محبت کرتے ہوئے اپنے مستقبل، سماجی پہچان، عزتِ نفس اور عملی زندگی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتا ہے۔
عقل ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ محبت میں صرف دینے کا نام نہیں، بلکہ ایک صحت مند رشتہ وہ ہوتا ہے جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کو خوشی دینے کے ساتھ ساتھ اپنی عزت اور خودداری کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ بے جا قربانیاں، خود کو دوسروں کے لیے مکمل طور پر فنا کر دینا، یا جذبات میں بہہ کر غیر ضروری فیصلے لینا محبت کی اصل روح نہیں ہے۔
عقل کے بغیر محبت کے نقصانات
اگر محبت میں عقل شامل نہ ہو، تو اکثر لوگ غلط فیصلے کر بیٹھتے ہیں۔ ایسے تعلقات میں اندھی وابستگی، خود کو نقصان پہنچانے والے فیصلے، اور جذباتی بلیک میلنگ جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ بعض اوقات لوگ محبت میں اپنی شناخت تک کھو بیٹھتے ہیں اور ایک ایسے دائرے میں پھنس جاتے ہیں جہاں وہ اپنے اصولوں، خوابوں، اور عزتِ نفس کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
بعض اوقات، محبت میں بغیر سوچے سمجھے تعلق قائم کرنے سے بعد میں احساس ہوتا ہے کہ وہ شخص درحقیقت ہمارے لیے مناسب نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ محبت میں عقل کی روشنی ضروری ہوتی ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کو کسی ایسی سمت میں نہ لے جائیں جو ہمیں بعد میں پچھتاوے میں مبتلا کر دے۔
محبت کے بغیر عقل کے نقصانات
دوسری جانب، اگر کوئی شخص محبت میں صرف عقل سے کام لے اور جذبات کی اہمیت کو نظر انداز کر دے، تو وہ ایک میکانیکی رشتہ بن جاتا ہے جس میں احساسات کی مٹھاس اور جذبات کی گرمی نہیں رہتی۔ ایسے تعلقات میں قربت اور محبت کے جذبات کمزور ہو سکتے ہیں، اور ایک ایسا رشتہ بن سکتا ہے جو محض ذمہ داری اور مصلحت کی بنیاد پر چل رہا ہو۔
ایسے افراد جو ہر چیز کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں اور محبت میں بھی صرف فائدہ و نقصان دیکھتے ہیں، وہ زندگی میں ایک حقیقی، گرمجوش اور گہرے تعلق سے محروم رہ سکتے ہیں۔ محبت میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو منطق سے بالاتر ہوتی ہیں، جنہیں صرف محسوس کیا جا سکتا ہے۔
توازن کی ضرورت
اصل مسئلہ یہی ہے کہ محبت اور عقل کو ایک دوسرے کا متضاد نہ سمجھا جائے، بلکہ انہیں ایک دوسرے کا تکملہ بنایا جائے۔ محبت میں اگر سمجھداری، حقیقت پسندی اور حکمتِ عملی ہو تو یہ ایک مضبوط اور دیرپا رشتہ بنتا ہے۔ اسی طرح، اگر عقل میں محبت کی گرمی اور احساس ہو تو یہ ایک خوشگوار اور محبت بھری زندگی فراہم کرتی ہے۔
کامیاب رشتے وہی ہوتے ہیں جن میں محبت جذباتی گہرائی کے ساتھ ساتھ عقلی استحکام بھی رکھتی ہو۔ ایسے رشتے دیرپا اور مضبوط ہوتے ہیں، جہاں نہ جذبات اندھے ہوتے ہیں اور نہ عقل بے حس۔
محبت اور عقل ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر چلنے والے اصول ہیں۔ اگر محبت کو بے قابو جذبات کی نذر کر دیا جائے تو یہ بربادی لا سکتی ہے، اور اگر عقل میں محبت کی نرمی شامل نہ ہو تو یہ زندگی کو بے رنگ بنا سکتی ہے۔ اصل کامیابی ان دونوں کے درمیان وہ توازن قائم کرنے میں ہے جو نہ صرف رشتے کو مضبوط رکھے بلکہ زندگی کو خوشیوں اور کامیابیوں سے بھی بھر دے۔
محبت وہی کامیاب ہوتی ہے جس میں جذبات کی مٹھاس اور عقل کی روشنی دونوں شامل ہوں۔ زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں یہ سیکھنا ہوگا کہ کب جذبات کو ترجیح دینی ہے اور کب عقل کو، تاکہ ہم ایک ایسا رشتہ قائم کر سکیں جو نہ صرف خوبصورت ہو بلکہ دیرپا بھی ہو۔
(کالم نگار مصنف ہیں اور پیشہ سےایک استاد ہیں ان کا تعلق بونیاربارہمولہ سے ہے)