جموں و کشمیر، جو کبھی اپنے فراوان آبی وسائل کے لیے مشہور تھا، اب شدید پانی کے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ چونکہ موسم سرما ہم سے رخصت ہونے والا ہے اور پھر گرمیوں کا موسم آ جائے گا، ماہرین اس بات پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کہ جموں و کشمیر خاص طور پر وادی کے دریاو¿ں اور جھیلوں کی سطحِ آب مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے اور یہ صورتحال گزشتہ کئی سالوں سے نا موافق موسمی حالات کی وجہ سے مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ اس خطے میں برفباری اور بارشوں میں کمی کے باعث حالات سنگین ہوتے جا رہے ہیں اور اب یہ بحران اتنا شدید ہو چکا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو صورتحال مزید بگڑ سکتی ہے۔اگرچہ ایک نئی مغربی لہر20 فروری کو بارش اور برفباری کا باعث بننے کی توقع ہے، لیکن اس سے صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ ماہرین کے مطابق، اس سے بارش کی کمی کو80 فیصد سے کم کر کے 70 فیصد تک لایا جا سکتا ہے، مگر یہ کمی اتنی نہیں کہ گزشتہ برسوں کی کمی کو پورا کر سکے۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ہمیں ایک بڑے مغربی ہواﺅں کی ضرورت ہے جو اس بحران کو مو¿ثر طریقے سے حل کرے، لیکن یہ ابھی تک ایک غیر یقینی پیشگوئی ہے۔گزشتہ چار سالوں میں، دریائے جہلم جیسے اہم دریاو¿ں کی سطحِ آب میں مسلسل کمی آئی ہے، اور یہ مسلسل چھٹا سال اس کمی کا شکارہے۔
یہ صورتحال زراعت اور باغبانی کے شعبوں کے لیے بہت زیادہ پریشانی کا سبب بن سکتی ہے کیونکہ پانی کی کمی خاص طور پر آبپاشی کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس بحران کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جموں و کشمیر اس سال پانی کے شدید بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ بحران حالیہ نہیں بلکہ کئی سالوں سے بتدریج بڑھ رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے کہا ’یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ کئی سالوں سے بڑھتا جا رہا ہے‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو پانی کے انتظام اور تحفظ کے لیے ایک فعال طریقہ کار اپنانا چاہیے، تاہم اس بحران کا حل صرف حکومت کے اقدامات سے نہیں نکل سکتا۔ عوام کو بھی پانی کے استعمال میں احتیاط برتنی ہوگی اور پانی کی بچت کے لیے ا پنی عادات میں تبدیلی لانی ہوگی۔وزیراعلیٰ نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ جل شکتی (پی ایچ ای) محکمہ کے اقدامات کا جائزہ لیں گے اور عوام کے ساتھ مشاورت کریں گے تاکہ اس بحران کا مشترکہ حل نکالا جا سکے۔ تاہم، اگر متوقع بارشیں اور برفباری نہ ہوئیں اور پانی کی کمی 40 فیصد سے کم نہ ہو سکی تو صورتحال مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ وقتی بہتری کے امکانات ہیں، مگر جو بنیادی مسئلہ ہے یعنی سردیوں میں بارش اور برفباری میں کمی، وہ ایک طویل مدتی بحران بن چکا ہے جس کا کوئی فوری حل نظر نہیں آتا۔ جموں و کشمیر کی قیادت کو اب اس بحران کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ٹیکنالوجی سے سڑکیں، پل، ریل نیٹ ورک اور ہوائی اڈے تو بنا سکتے ہیں، مگر پانی کے وسائل ایک بار ضائع ہو جانے کے بعد واپس نہیں لائے جا سکتے۔ اس لیے ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے اور ترقیاتی منصوبے بھی ماحولیاتی تحفظ کے تحت بھی ترتیب دیئے جانے چاہیے۔ حکومت، عوام اور ماہرین کو مل کر اس سنگین بحران کا سامنا کرنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ اس تباہی کو ٹالا جا سکے اور جموں و کشمیر کے آبی وسائل کا تحفظ کیا جا سکے۔





