مرکز زیر انتظام کشمیر میں بجلی کا بحران ایک ایسا مسئلہ بن چکا ہے جس نے مقامی آبادی کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ حکومت کی عدم توجہی اور غیر منصوبہ بندی کیساتھ ساتھ محکمہ برقیات کی خامیوں نے بجلی کی فراہمی کو ایک چیلنج بنا دیا ہے۔ اگرچہ کشمیر کی قدرتی خوبصورتی اور اس کا جغرافیائی تنوع دنیا بھر میں مشہور ومعروف ہے، مگر یہاں کے عوام کو اس قدرتی حسن کے مقابلے میں بنیادی ضروریات جیسے بجلی کی فراہمی میں مایوسی کا سامنا ہے۔وادی میں بجلی بحران کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ یہاں کے بیشتر علاقوں تک بجلی پہنچانے کے لیے ضروری انفراسٹرکچر کی کمی ہے۔ موسم سرما اور دیگر قدرتی آفات کی وجہ سے بجلی کے ترسیلی نظام میں خلل آنا معمول بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ، لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، جس سے عوام کی روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ کاروبار، تعلیمی ادارے اور صحت کے شعبے تک اس بحران سے بے اثر نہیں ہیں۔
اس بحران کے منفی اثرات نہ صرف مقامی معیشت پر پڑ رہے ہیں بلکہ وادی کے عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل بھی مشکل ہو چکی ہے۔ تعلیمی اداروں میں تدریسی عمل متاثر ہو رہا ہے، ہسپتالوں میں طبی سہولتیں فراہم کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں اور گھریلو سطح پر عوام جنریٹرز ، انویٹرز اور دیگر متبادل ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ متبادل ذرائع نہ صرف مہنگے ہیں بلکہ ان کے استعمال سے ماحولیاتی آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ایسی صورتحال میں حکومت کی طرف سے کیے گئے اقدامات اکثر ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔مرکزی اور جموں وکشمیر کی حکومتوں نے کچھ منصوبے شروع کیے ہیں، مگر ان کی تکمیل کی رفتار نہایت سست ہے اور اس سے وادی کے عوام کو فوری طور پر کسی بھی ریلیف کا سامنا نہیں ہو رہا۔آنے جانے کا کھیل صدیوں سے جاری ہے اور اکیسویں صدی میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا ۔
مقامی سطح پر توانائی کے متبادل ذرائع جیسے شمسی توانائی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے ناگزیر ہو چکے ہیں تاکہ توانائی کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے اور عوام کی زندگیوں میں بہتری لائی جا سکے۔اس ضمن میں حکومت سرگرم ہے اور اسکیمیں بھی مرتب کی گئیں ۔تاہم عوام تک ان اسکیموں کو پہنچانے کے لئے کئی سطحوں پر مہمات چلانے کی ضرورت ہے ۔آخرکار، وادی میں بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے حکومت کو اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانی ہوگی، مقامی وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کی ضرورت ہے اور ایک پائیدار توانائی کے نظام کی تشکیل کرنی ہوگی تاکہ وادی کے عوام کو بنیادی سہولتیں فراہم کی جا سکیں۔ جب تک اس بحران کے حل کے لیے سنجیدہ اور عملی اقدامات نہیں کیے جاتے، وادی میں رہنے والوں کی زندگی میں کوئی خاص بہتری ممکن نہیں۔
