وزیر اعظم نریندرا مودی کا دورہ کشمیر اور وزیر اعلیٰ کی تقریب کے دوران خطاب اس بات کا غماز ہے کہ جموں و کشمیر اور مرکزی قیادت ایک دوسرے کی ہم آہنگ ہو چکی ہے ۔ جموں وکشمیر کے ترقیاتی منصوبوں کی عمل آوری ہو یا سیاسی فیصلے موجودہ مرکزی سرکار ہی اس میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔گزشتہ روز سونہ مرگ زیڈ موڑ ٹنل کی افتتاحیتقریب کے دوران جموں وکشمیرکے وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ نے وزیر اعظم کے سامنے تقریر کرتے ہوئے انہیں جموں کشمیر کو باضابطہ ریاست کا درجہ واپس کرنے کے وعدے پر عمل پیرا ہونے کی بات کی، جس پر وزیر اعظم نے جواب دے کر کہا کہ مودی جو وعدہ کرتا ہے ،وہ نبھاتا بھی ہے۔وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے سال 2019میں ملک کے سب سے بڑے جمہوری ایوان یعنی پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ صحیح وقت آنے پر جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ کو اپوزیشن جماعتوں نے تنقید کا نشانہ ن بناتے ہوئے ان پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ انتخابات کے دوران عوام سے کئے گئے وعدوں سے انحراف کرنے لگے ہیں اور اب اقتدار کی لالچ میں بی جے پی کی بولی بولنے لگے ہیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مرکزی حکومت ہی ایک ایسی طاقت ہے، جو جموں وکشمیر کے لوگوں کو چاہے تو ہر ممکن سہولیت اور سیاستدانوں کو اختیارات تفویض کرسکتی ہے ۔
ترقیاتی منصوبوں کی عمل آوری ہو یا امن و امان کی صورتحال ۔5 اگست 2019کے بعد جموں کشمیر خاص کر وادی میں امن قائم ہوا اور ترقی کے منصوبے عملائے جارہے ہیں۔اس سے قبل وادی میں حالات درہم برہم تھے۔بچوں کی تعلیم اثرانداز ہو رہی تھی ،اسکول،کالج اور تربیتی ادارے اکثر و بیشتر بند رہتے تھے۔سڑکوں پر پتھراﺅ اور تشدد کے واقعات روز کا معمول بن چکے تھے۔سرکاری دفاتر میں کام کاج کا نظام پوری طرح سے مفلوج ہو چکا تھا۔اکثر سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی چھوڑ کر سیاسی معاملات میں محو رہتے تھے۔رشوت ستانی عروج پر تھی۔لیکن جو ہی جموںو کشمیر مرکزی زیر انتظام علاقہ بن گیا ،تو سارا نظام بہتر ہونے لگا،تشدد کا خاتمہ ہوا،سرکاری دفاتر میں ملازمین کی حاضری صد فیصد دیکھنے کو ملی،رشوت ستانی کے گراف میں نمایاں کمی آگئی،اسکولوں،کالجوں اور دانشگاہوں میں نظام تعلیم بہتر ہونے لگا،مختلف ترقیاتی پرجیکٹ عمل میں لائے گئے ،نئے اسپتالوں ،یونیورسیٹوں اور کالجوں کی تعمیر ہوئی ۔کھیل کود کے میدان میں وادی کے بچوں نے اعلیٰ کارکردگی دکھا کر اپنا اور وطن کا نام روشن کیا۔الغرض ہرسطح پر بہتری دیکھنے کو ملی۔جہاں تک صاف و شفاف انتخابات کا تعلق ہے ان کا کوئی جواب نہیں ورنہ نیشنل کانفرنس کا اقتدار میں آنا، اس تنظیم کے لیڈران کے وہم و گمان میں نہیں تھا۔بہر حال اب جموں وکشمیر کے حالات ہر سطح پر بہتر ہیں، جس کا سہرا مرکزی حکومت اور ایل جی انتظامیہ کے سر جاتا ہے ۔اب وقت اور حالات بدل چکے ہیں، اب مرکزی حکومت کو عمر عبداللہ سرکار پر بھروسہ کرنا چا ہیے اور انہیں کام کرنے کے لئے موقع فراہم کرنا چا ہیے اور اس سرکار کو بھر پور اختیارات فراہم کرنے چا ہیے۔اس اقدام سے مرکزی سرکار یہ ثابت کردے گی کہ اس نے جموں وکشمیر کے عوام مینڈیٹ کا احترام کیا ۔عوامی مینڈیٹ کا احترام کر کے وزیر اعظم کی سربراہی والی مرکزی سرکار یہ فیصلہ سُنا دے کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ واپس دیاگیا،جس کا وعدہ اس نے پارلیمنٹ میں کیا تھا۔ اس طرح ملک کی اس اہم جگہ میں آباد لوگوں کی عزت بھی بحال ہوگی اور ترقی و خوشحالی کا سلسلہ بھی جاری رہے گا اور کسی کو غلط پروپگنڈا کرنے کا موقع بھی نہیں ملے گا۔