عابد حسین راتھر
خوراک اور لباس کے علاوہ مکان یا پناہ گاہ انسان کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے؛ جو ہمیں مختلف خطرات سے تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ذاتی و اجتماعی زندگی گزارنے کے لیے جگہ فراہم کرتا ہے۔ یہ گرمی، سردی، بارش اور قدرتی آفات جیسے ماحولیاتی عناصر سے پناہ گاہ کے طور پر کام کرتا ہے اور ہمارے جسمانی تحفظ اور سکون کو یقینی بناتا ہے۔ مکانات کی تعمیر اور ان کا ڈیزائن ثقافتی شناخت سے گہرا تعلق رکھتے ہیں، جو کسی بھی معاشرے کی روایات، عقائد اور ماحولیاتی حالات کی عکاسی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اِیسکیموز کے گنبد نما برفانی گھر اِگلوز، مٹی کے جھونپڑے یا ستونوں پر بنے مکانات مقامی آب و ہوا اور دستیاب وسائل کے ساتھ ساتھ ماحول اور آب وہوا سے ہم آہنگی اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ کسی بھی خطے میں ایک مکان کی تعمیر کے دوران اُس خطے کے معاشرتی اقدار مکان کی تعمیر کے عمل، اس کے ڈیزائن، ڈیکوریشن وغیرہ پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ اس طرح مکان صرف ایک مادی ڈھانچہ نہیں بلکہ ثقافتی ورثے اور انسانی ذہانت کا مظہر ہے۔
جب ہم وادئ کشمیر میں پرانے روایتی مکانات کے تعمیراتی انداز پر نظر ڈالتے ہیں، تو یہ قدرت، ثقافت اور ماحول کے درمیان ایک گہری ہم آہنگی کی عکاسی کرتا ہے۔ ہمارے پرانے روایتی مکانات، جو اکثر مقامی طور پر دستیاب مواد جیسے لکڑی، مٹی اور پتھر سے بنائے جاتے تھے، قدرتی آب وہوا کے ساتھ مکمل ہم آہنگی میں ڈھل جاتے تھے۔ ڈھلوان چھتیں، جو بھاری برفباری کو برداشت کرنے کے لیے بنائی جاتی تھیں، اور باریک نقاشی والے لکڑی کے تختے کشمیری ثقافت کی ذہانت اور فنی وراثت کو ظاہر کرتے تھیں۔ ایسی تعمیراتی ترجیحات حرارتی موصلیت یعنی تھرمل اِنسولیشن کو یقینی بناتی تھیں، جس سے مصنوعی حرارت پر کم انحصار ہوتا تھا اور ماحول موافق یا ماحول دوست طریقہ کار کو اُجاگر کیا جاتا تھا۔ ہمارے پرانے مکانات کے ڈیزائن اور فنِ تعمیر کا ہمارے ثقافتی اقدار اور ماحولیاتی پائیداری کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا تھا جو کشمیری عوام اور ان کے منفرد ماحولیاتی نظام کے درمیان ایک ہم آہنگ تعلق کو ظاہر کرتا تھا۔ یہ تعمیرات نہ صرف جمالیاتی طور پر خوبصورت ہوتے تھے بلکہ موسمی شدتوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے باریک بینی سے ڈیزائن کئے جاتے تھے۔ چونکہ ہمارے پرانے مکانات کی تعمیر میں دِیودار کی لکڑی اور بغیر پکی ہوئی اینٹوں کا استعمال ہوتا تھا لہذا یہ مکانات ہمیں سخت سردیوں میں گرمی فراہم کرتے تھے۔ یہ مکانات موسم گرما کی شدید گرمی اور موسم سرما کی سخت سردی سے بچاؤ کے لیے بہترین انسولیٹر کے طور پر کام کرتے تھے۔ ان کی ڈھلوان چھتیں بھاری برف کو آسانی سے پھسلنے دیتی تھیں، جس سے مکان کے ڈھانچے کو نقصان پہنچنے سے بچایا جاتا تھا۔ قدرتی مواد جیسے مٹی، پتھر اور لکڑی کے استعمال سے ان مکانات کو ماحول دوست یا ماحول موافق بنایا جاتا تھا اور ان کے اردگرد کے ماحول کے ساتھ ہم آہنگی کو یقینی بنایا جاتا تھا۔ ہمارے پرانے مکانات کے اندرونی کمروں کو اکثر اخروٹ کی لکڑی کی کاریگری سے سجایا جاتا تھا۔ چونکہ یہ لکڑی نرم ہوتی ہے، اس پر عمدہ نقاشی ممکن تھی، جو کشمیریوں کے جمالیاتی ذوق کی عکاسی کرتی تھی۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے پرانے روایتی مکانات محض ہماری پناہ گاہیں نہیں تھیں بلکہ ثقافتی نمونے تھے، جو صدیوں کی حکمت، کاریگری اور ماحولیاتی مطابقت کا مظہر تھے۔
گزشتہ ایک یا دو دہائیوں سے کشمیر میں فنِ تعمیر کے منظر نامے میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔ ہمارے جدید مکانات کے کنکریٹ اور اسٹیل سے بنے ڈھانچے، فلیٹ یا ہموار چھتیں، شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں اور نئے نئے ڈیزائنوں کا استعمال جدیدیت کی گہری پسندیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے وجوہات کئی عوامل ہیں جن میں ٹیکنالوجی تک بڑھتی ہوئی رسائی، شہری طرزِ زندگی کی نقل کرنے کی خواہش، اور روایتی ڈیزائن کو پرانا یا غیر مؤثر سمجھنے کا رجحان شامل ہیں۔ بدقسمتی سے یہ رجحان نمایاں نقصانات کے ساتھ آیا ہے۔ کشمیر میں نئے مکانات کا تعمیراتی کام اکثر اس خطے کی موسمی ضروریات کو نظر انداز کرتا ہے۔ مثال کے طور پر فلیٹ یا ہموار چھتیں شدید برفباری کے لیے موزوں نہیں ہیں، جو کشمیر کے موسمِ سرما کی نمایاں خصوصیت ہے۔ لہذا ہموار یا فلیٹ چھتوں کے نتیجے میں پانی کا رساؤ اور مکان کے ڈھانچے کی کمزوری پیدا ہوتی ہے۔ مکانات میں شیشے، لوہے اور اسٹیل کا زیادہ استعمال کم حرارتی موصلیت یا کم تھرمل انسولیشن کا باعث بنتا ہے جس سے ان جدید طرز کے مکانات کو سردیوں کے مہینوں میں گرم کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور مجموعی طور پر ان مکانات کو گرم یا ٹھنڈا رکھنے کیلئے توانائی کا بہت زیادہ استعمال ہوتا ہیں۔ کشمیر کا شدید سرد موسم اور منفرد آب و ہوا ایسے طرزِ تعمیر کا تقاضا کرتے ہیں جو اِس کے منفرد موسمی حالات کا آسانی سے مقابلہ کرسکیں۔ ہمارے پرانے روایتی مکانات کی موٹی مٹی کی دیواریں اور چھوٹی کھڑکیاں قدرتی طور پر انسولیشن فراہم کرتی تھیں جس سے یہ مکانات بیرونی حرارتی نظام پر کم منحصر ہوتے تھے۔ اس کے برعکس ہمارے جدید مکانات کو سردیوں کے دوران گرم رکھنے کے لیے وسیع توانائی کا استعمال کرنا پڑتا ہے جس میں بجلی سے چلنے والے ہیٹرز، ایل پی جی ہیٹرز، اور حمام سسٹم کا ضرورت سے زیادہ استعمال شامل ہیں۔
ماحولیاتی منفی اثرات کے علاوہ، روایتی طرزِ تعمیر کا ختم ہونا ہماری ثقافتی شناخت کے زبردست نقصان کی نمائندگی کرتا ہے۔ عمومی طور پر مکانات کا طرزِ تعمیر کسی بھی معاشرے کے ورثے کی توسیع سمجھا جاتا ہے، اور ہماری وادی میں روایتی تعمیراتی ڈھانچے کشمیر کی منفرد تاریخ اور روایات کی بصری یاد دہانی تھے۔ ہمارے پرانے مکانات کی ختہ بند کی پیچیدہ چھتیں اور پنجرہ کاری کی کھڑکیوں کے ڈیزائن ایسی ہنر مند کاریگری کو ظاہر کرتے تھے جو نسل در نسل ہمارے کاریگروں میں منتقل ہوئی تھی۔ لیکن یہ منفرد چیزیں اب ہمارے جدید مکانات میں ایسے سادہ اور عام ڈیزائنوں سے بدل رہے ہیں جو کسی بھی عام علاقے سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ تعمیراتی تبدیلی ہماری نوجوان نسلوں کو ان کی ثقافتی جڑوں سے دور کر رہی ہے۔ پرانے روایتی گھروں کے غائب ہونے کے ساتھ ہی ان سے جُڑی کہانیاں، اقدار، اور ہُنر بھی اب آہستہ آہستہ ختم ہو رہیں ہیں اور یہ ایک ایسا ثقافتی خلا پیدا کر رہا ہے جس سے آسانی سے پُر کرنا ایک کٹھن کام ہے۔ کشمیر کا روایتی طرزِ تعمیر نہ صرف ہمیں ماضی سے جوڑتا تھا بلکہ زلزلوں کے خلاف ایک اہم دفاع بھی فراہم کرتا تھا۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ زلزلوں کے دوران جدید کنکریٹ مکانات منہدم ہو جاتے ہیں، جب کہ صدیوں پرانے روایتی مکانات سالم رہتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زلزلے کے جھٹکوں کے بعد روایتی ڈھانچے اپنی اصل پوزیشن پر واپس آ جاتے ہیں، جب کہ کنکریٹ کے ڈھانچے میں یہ لچک موجود نہیں ہوتی۔
جدید طرزِ زندگی سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن ہمارا جدید طرزِ زندگی ثقافتی شناخت اور ماحولیاتی ہم آہنگی کی قیمت پر نہیں ہونا چاہیے۔ کشمیر کے تعمیراتی ورثے کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے فنِ تعمیرات کے طرزِ عمل پر نظر ثانی کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ آئندہ مستقبل کے تعمیراتی منصوبے پائیدار ہو اور خطے کی منفرد ثقافت اور ماحول کی عکاسی کرتے ہو۔ ہمیں اپنے نئے مکانات کے جدید تعمیراتی ڈیزائنوں میں ڈھلوان چھتوں، قدرتی انسولیشن، اور باریک لکڑی کی کاریگری جیسے عناصر کو شامل کرنا چاہیے۔ مزید برآں، نئے تعمیرات کے لیے مقامی طور پر دستیاب پائیدار مواد کا استعمال ماحولیاتی عدمِ توازن کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے نئے مکانات کے ڈیزائن میں روایتی جمالیات کو جدید فعالیت کے ساتھ یکجا کریں، جیسے کہ پنجرہ کاری کے ڈیزائن کے ساتھ توانائی کی بچت کرنے والی کھڑکیوں کا استعمال کرنا۔ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ ہماری وادی میں زیادہ تر انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ افراد بنیادی طور پر کنکریٹ پر مبنی ڈیزائنز سیکھ رہیں ہیں۔ اس طرزِ عمل پر نظر ثانی اور اصلاح کی ضرورت ہے۔ حکومت نے بھی روایتی طرزِ تعمیر کی تعلیم اور جدت کو فروغ دینے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔ جدیدیت کے گمراہ کن تصور نے روایتی علم اور سائنس کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سرکاری اور پرائیوٹ اداروں کو ایسی تعمیراتی پالیسیوں کے فروغ میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے جو مقامی روایات کا احترام کرے۔ جدیدیت کی کشش اپنی جگہ، لیکن کشمیری قوم کو اپنی خصوصیات نہیں کھونی چاہئیں جو اسے منفرد بناتی ہیں۔ ہمیں یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ وہ تعمیراتی فن جو ثقافتی شناخت اور موسمی حقائق کو نظر انداز کرتا ہے، وقتی سہولت تو فراہم کر سکتا ہے، لیکن اس کے طویل مدتی اثرات بہت بھیانک ہو سکتے ہیں۔