حافظ مجاہد عظیم آبادی
اردو زبان، جسے ہم محبت سے "شاعروں کی زبان” کہتے ہیں، آج کل اپنے ہی عاشقوں کے ہاتھوں رسوا ہو رہی ہے۔ اردو کا جو مقام کبھی دنیا کی معروف زبانوں کے برابر تھا، وہ اب "واٹس ایپ اسٹیٹس” اور "انسٹاگرام کیپشنز” میں سسک رہا ہے۔ اس زبان کا ماضی ایسا ہے کہ غالب اور میر بھی سوچ رہے ہوں گے کہ شاید غلط سیارہ چُن لیا تھا شاعری کرنے کے لیے۔ آج کی حقیقت یہ ہے کہ ہم اردو کو صرف "ڈراموں کے ڈائیلاگ” اور "میمز” میں زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
ذرا سوچیں، وہ زبان جس نے غالب کو پیدا کیا، اسے آج ہم نے کرنٹ افیئرز کے تجزیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ وہ زبان جس میں اقبال نے خودی کا درس دیا، آج اس میں یوٹیوب وی لاگز کے ٹائٹلز لکھے جا رہے ہیں۔ ہاں، یہی ہے ہمارا جدید اردو کلچر! ہم نے اردو کو "فیشن” بنا لیا ہے، لیکن بس اتنا ہی کہ جتنا ٹنڈرز میں "اردو میں درخواست دینا لازمی ہے” کے نوٹس میں شامل کیا جاتا ہے۔
تعلیم کا میدان: اردو کی کمر توڑنے کی فیکٹری
آج کے تعلیمی اداروں میں اردو کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، وہ کسی اذیت ناک ڈرامے سے کم نہیں۔ والدین صبح اسکول کی گاڑی میں بچوں کو بٹھاتے ہوئے بڑے چاؤ سے کہتے ہیں، "Good Day Beta! Have a Lovely Day at School!” گویا اردو میں دن کی دعا دینے سے بچے کی نشوونما پر منفی اثر پڑ جائے گا۔ اب ظاہر سی بات ہے کہ جب دن کا آغاز انگریزی کے خوشبودار الفاظ سے ہوگا، تو بچے کو محبت بھی انگریزی سے ہی ہوگی۔ ہاں، یہ بات نہیں کہ انگریزی نہ سکھائی جائے، مگر اردو کے ساتھ یہ "سوتیلا سلوک” تو ناقابلِ دید ہے، بلکہ یوں کہیے کہ اردو کے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہے جیسے یہ کوئی دور پار کی رشتہ دار ہو جسے سال میں ایک بار مجبوری میں ملنا پڑے۔
مزید ستم یہ کہ خود اردو کے اساتذہ کلاس میں ایسے پڑھاتے ہیں جیسے وہ خود بھی کسی "تعزیری مشقت” کا سامنا کر رہے ہوں۔ بچوں کو مخاطب کرتے ہیں: "بچو، آج ہم غالب کی غزل پڑھیں گے۔ اور یاد رکھیں، اس کا خلاصہ ضرور یاد کر لینا تاکہ امتحان میں نمبر مل جائیں۔” یعنی اردو کا مقصد ہے "خلاصہ رٹنا، کاغذ پر انڈیلنا، اور پھر ہمیشہ کے لیے بھول جانا!” غزل کو سمجھنے یا اس سے لطف اندوز ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیونکہ بھائی، اصل کامیابی تو "نمبر” ہیں، باقی غالب اور میر کی روحیں بھاڑ میں جائیں۔
بچے کو "پانی"اور "Water”میں انتخاب کا موقع دیا جائے تو وہ انگلی اٹھا کر فوراً "Water”کہے گا۔ اگر کہیں اردو کا کوئی لفظ استعمال کر لے تو سمجھو وہ "وطن پرست” ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔
ہمارے اسکولوں میں اردو پڑھانے کا انداز ایسا ہے جیسے یہ کوئی "ایمپورٹڈ زبان” ہو، اور بچوں کو سمجھایا جا رہا ہو کہ اردو کا سیکھنا بالکل ایسے ہی ہے جیسے "ضرورت سے زیادہ اخلاقیات" – یعنی تھوڑا سا سیکھ لو، مگر زیادہ دل نہ لگاؤ، ورنہ دنیا میں آگے بڑھنا مشکل ہو جائے گا۔ انگریزی کے "فائیو اسٹار"الفاظ اور "ہائے ہیلو"کے بغیر کامیابی کا خواب دیکھنا تو آج کے دور میں "پرانی دہلی کے قصے"جیسا ہو گیا ہے۔
بچوں کو اردو پڑھانے کے بجائے "اردو کا بوجھ” اتارا جاتا ہے۔ اساتذہ کے چہرے پر وہی تاثرات ہوتے ہیں جو کسی تھکے ہارے مسافر کے ہوتے ہیں، اور زبانِ حال سے یہی کہتے ہیں، "خدارا، بس کسی طرح یہ نصاب مکمل ہو جائے!” نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے اردو کے جملے پڑھتے ہیں جیسے وہ گریک زبان کے کوڈز ہوں۔
اردو کے ساتھ اس بے اعتنائی کی ایک دلچسپ مثال وہ والدین بھی ہیں جو اسکول کے سالانہ فنکشن میں جاتے ہیں اور بچوں کی "انگریزی تقریر"سن کر فخر سے پھولے نہیں سماتے۔ مگر جب بچہ اردو کے چند جملے لڑکھڑاتے ہوئے پڑھتا ہے تو شرم سے نظریں جھکا لیتے ہیں، جیسے بچہ کوئی "غیر اخلاقی حرکت"کر بیٹھا ہو۔
ہم نے اردو کو اپنے ذہنوں میں اتنا محدود کر دیا ہے کہ اگر کسی بچے کو اردو میں مضمون لکھنے کو کہا جائے تو وہ فوراً گوگل کی طرف دوڑتا ہے اور سرچ بار میں ٹائپ کرتا ہے: "Best Urdu Essay on My Country"۔ جدید تعلیمی نظام نے بچوں کو اتنا خودکار بنا دیا ہے کہ اردو سیکھنا ان کے لیے "پی ٹی کلاس"جیسا ہوگیا ہے – یعنی بس زندہ رہنے کے لیے برداشت کر لو۔
اردو کا یہ حال دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ ہم نے اسے صرف "حاضرِ خدمت” زبان بنا دیا ہے۔ وہ زبان جس میں محبت، تہذیب، اور علم کے دریا بہا کرتے تھے، آج وہ زبان "بورڈ کے امتحان"میں مارکس کمانے کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اگر ہم نے یہی سلوک جاری رکھا تو اردو کتابوں میں بند ہو کر رہ جائے گی، اور ہمارے بچے غالب کے نام پر کہیں گے: "یہ کوئی نئی سوشل میڈیا ایپ ہے کیا؟”
خدارا، اردو کو زندہ رکھیں! اسے محض ایک "سبجیکٹ” نہ سمجھیں بلکہ اپنی شناخت اور فخر سمجھیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم اردو کی صرف یادیں سنبھال کر بیٹھے ہوں گے، اور ہمارے بچے ہم سے پوچھیں گے: "پاپا، اردو وہ زبان ہے جس میں آپ نے کبھی محبت کا اظہار کیا تھا؟”
اردو ادب: خزانہ یا ماضی کی قبر؟
اردو کے اصل ادب کا حال دیکھ کر تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میر، غالب، اقبال، منٹو– یہ نام کتابوں میں دبے رہ گئے ہیں۔ کسی نوجوان کو منٹو کا نام لے کر دیکھیں، فوراً جواب آئے گا: "منٹو؟ وہ شاید وہ انڈین فلم والا گانا ہے نا؟"۔ ہاں بھئی، ادب سے ہمارا یہی رشتہ رہ گیا ہے۔ اردو کے افسانے اور ناول اب صرف "کورس کی کتابوں"میں زندہ ہیں، اور وہ بھی تب تک جب تک امتحان کی تیاری ہو رہی ہو۔
کتب میلوں میں اردو کی کتابیں کسی یتیم کی طرح ایک کونے میں پڑی رہتی ہیں، اور لوگ انہیں یوں دیکھتے ہیں جیسے یہ کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوں۔ اور جب کبھی کسی نے غالب کی دیوان اٹھا لی، تو فوراً پوچھا جاتا ہے، "یہ کس کی سوانح حیات ہے؟"۔
حکومت اور اردو: دکھاوا یا حقیقت؟
ہمارے حکومتی ادارے اردو کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو "رشتہ دیکھنے آئے لڑکے والے” لڑکی سے کرتے ہیں۔ ظاہری تعریفوں کی بارش کرتے ہیں: "ماشاءاللہ، کتنی خوبصورت زبان ہے! کتنی شیریں ہے!” لیکن دل میں وہی "اعتراضات کی لسٹ” تیار رکھتے ہیں، جیسے "استعمال تو بالکل ہی مشکل ہے، جدید دور کے قابل نہیں!”
اردو کو "قومی زبان” کا تاج تو پہنایا گیا ہے، مگر سرکاری دفاتر میں اگر کوئی "ہوش مند” شخص اردو میں فائل جمع کروا دے، تو اسے یوں دیکھا جاتا ہے جیسے اس نے کوئی "نوادرات” یا "گمشدہ تہذیب” پیش کر دی ہو۔ کلرک کی آنکھوں میں حیرت اور ہونٹوں پر طنزیہ مسکراہٹ ہوتی ہے، جیسے کہنا چاہتا ہو، "بھائی صاحب، انگریزی میں دے دیتے، کام جلدی ہو جاتا!”
ترقی کی زبان تو بس انگریزی ہے نا! کیونکہ اگر آپ نے کسی "سرکاری افسر” سے انگریزی میں "Good Morning Sir” کہہ دیا تو وہ آپ کو خوشی سے چائے بھی پیش کرے گا۔ مگر اگر آپ نے معصومیت سے "السلام علیکم جناب” کہہ دیا، تو جواب آئے گا: "جی، فرمائیے، کیا مسئلہ ہے؟” گویا آپ نے سلام کر کے ان کی شان میں گستاخی کر دی ہو۔
ایسانہیںہےکہانگریزیزبانبرُیہے۔ مسئلہانگریزیکانہیں،مسئلہاردوکےساتھہمارے "سوتیلےپن” کاہے۔ اردوکوسرکاریسطحپروہیحیثیتدیجاتیہےجوکسی "پرانےخاندانکےبزرگ” کیہوتیہے – عزتبہتہے،مگرکامکےمعاملاتمیںدوررکھناضروریسمجھاجاتاہے۔ اسکیجگہ "معاشرتیوقار” کوبچانےکےلیےانگریزیکوآگےکردیاجاتاہے،تاکہ "پیشہورانہمہارت” پرکوئیسوالنہاٹھے۔
اورہاں،اگرکبھیکسینےاردومیںسرکاریکاغذاتیانوٹسزچھاپبھیدیے،تووہاردوایسیہوگیکہپڑھنےوالاخودکو "ایماےاردوکےامتحان” میںمحسوسکرےگا۔ وہی "ثقیلالفاظ”،وہی "مشکلجملے”،جیسےکہہرہےہوں، "عامآدمیکیسمجھسےباہررکھو،ورنہوہپڑھلےگااورسوالکرنےلگےگا!”
خواب یا طنز؟
اردو کا عالمی مقام اب محض ایک خواب رہ گیا ہے۔ ہم نے اپنی زبان کو "مذاق، طنز، اور وقت گزاری"تک محدود کر دیا ہے۔ اس زبان کو بچانے کی کوشش تبھی کامیاب ہو سکتی ہے جب ہم اسے اپنی روزمرہ زندگی میں اپنائیں، اس کے اصل حسن کو پہچانیں اور اس پر فخر کریں۔ اردو کی ترقی کے لیے یہ لازم ہے کہ ہم اسے "دل سے اپنائیں"، نہ کہ "فیشن"کے طور پر استعمال کریں۔
جیسا کہ کسی نے خوب کہا ہے:
"زبانیں ختم نہیں ہوتیں، انہیں ختم کر دیا جاتا ہے" – اور اگر ہم نے اردو کے ساتھ یہی رویہ رکھا تو یہ زبان ایک دن صرف نصابی کتابوں اور شاعری کے دیوانوں میں دفن ہو جائے گی۔