ہفتہ, جنوری ۲۵, ۲۰۲۵
2.6 C
Srinagar

نظام ِتعلیم اور تجارت۔۔۔۔۔۔

تعلیم اگر چہ ایک نور ہے، جس سے آدم حقیقی معنوں میں انسان بن جاتا ہے اور زندگی سنوارنے اور سجانے کے گُر سیکھتا ہے کہ کس طرح معاشرے میں زندگی گزار نی ہے ،کس طرح دیگر لوگوں کیساتھ سلوک کرنا ہوتا ہے ، کس طرح کمزور طبقوں کی مددکرنی ہوتی ہے تاکہ سارے لوگ ایک ہی سانچے میں رہ کر زندگی گزار سکتے ہیں، لیکن موجودہ دور کے انسان نے اس نور کو نہ صرف اپنے لئے بلکہ دوسرے لوگوں کے لئے آگ بنایا ہے، جس میں لوگ جھلس رہے ہیں۔اگر جموں کشمیر( یو ٹی) کی بات کریں ،یہاں حکمران تعلیم کو عام کرنے کے لئے اسکولوں،کالجوں ،دانشگاہوں اور تربیت گاہوں کا جال بچھا رہے ہیں لیکن دوسری جانب یہ بات بھی دیکھنی کو مل رہی ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں کی من مانیاں عروج پر ہیں،ان اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کے والدین روز بروز فکر و تشویش میں مبتلا ہو رہے ہیں کہ آخر وہ کس طرح اپنے بچوں کا مستقبل تابناک بنائیں گے۔ان پرائیویٹ اسکولوں میں ہر سال ایک الگ نصاب تیار کیا جاتا ہے ۔کتابیں تبدیل کی جاتی ہیں ۔ ٹرانسپورٹ ،وردیوں ،کھیل کود،سیر و تفریح اور انٹرا سکول پروگراموں کے نام پر ان والدین کو مختلف طریقوں سے لوٹ لیا جاتا ہے۔پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا جہاں تک تعلق ہے ،وہ من چاہا فیس بچوں سے وصول کرتے ہیں ۔ایڈمیشن کے نام پر لاکھوں روپے وصول کئے جاتے ہیں ۔سرکاری حکم ناموںکو بالائے طاق رکھا جارہا ہے ۔غرض ان پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے تعلیم کو اب تجارت میں تبدیل کیا ہے ۔ اب ہر کوئی سرمایہ دار اسکول کھول کر اپنی تجارت کو فروغ دینے لگا ہے اور تعلیم کے بنیادی اصولوں سے انحراف کر کے صرف نمبرات حاصل کرنے پر دھیان دے رہے ہیں ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ چند ایک ا یسے پرائیویٹ اسکول بھی ہیں، جو بورڈ حکام کے ساتھ ساز باز کرکے رشوت دیکر اپنے اسکولوں کو پوزشن دلواتے ہیں، جو کہ واقعی نظام تعلیم کا افسوس ناک پہلو ہے۔
جہاں تک نصاب کا تعلق ہے، یہ پورے ملک میں ایک جیساہونا چاہئے تھا ،تاکہ ملکی سطح پر بچوں کے درمیان یکساںطرح کا مقابلہ ہو سکے کہ کون کتنے پانی میں ہیں۔ہاں مختلف ریاستوں میں زبانیں الگ الگ ہوسکتی ہیں ،لیکن ہر اسکول کا اپنا الگ نصاب قائم کرنا ،کہاں کا انصاف ہے؟۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پُرانے ایام میں کلاس تبدیل ہونے پر بچے ایک دوسرے کی پُرانی کتابیں مفت میں حاصل کر کے اپنی تعلیم جاری رکھتے تھے لیکن آج ایسا ممکن نہیں ہو پاتا ہے کیونکہ آج کے دور میں ہر سال کتابیں تبدیل ہورہی ہیں ،وردیاں تبدیل کی جاتی ہیں، حد تو یہ ہے کہ یہ کتابیں اور وردیاں مخصوص دکانوں پر دستیاب ہوتی ہیں۔ایسے بک شاپس اور اسکول انتظامیہ کے درمیان مبینہ ساز باز بھی ہوتا ہے اور اس طرح لاکھوں روپے بطور کمیشن حاصل کیا جاتا ہے۔بچوں کے کندھوں پر کتابوں کابوجھ اتنا ہوتا ہے ،جس کو شاید ایک جوان بھی نہیں برداشت کرسکتا ہے۔جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ نے بھی اس حوالے سے اپنی رائے کا اظہا رکیا ہے لیکن صرف رائے کااظہار کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ہے اور نہ کوئی تبدیلی زمینی سطح پر آسکتی ہے۔ اس کے لئے چند سنجیدہ اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔پورے جموں کشمیر میں ایک نصاب قائم ہو نا چاہئے ،سرکاری سطح پر کتابیں ،وردیاں اور دیگر ضروریات بچوں کو کم قیمت پر فراہم ہونی چا ہیے اور پرائیویٹ تعلیمی ادروں کی لگام سرکار کے ہاتھوں میں ہونی چاہئے ۔ یکساں طرز پر نظام تعلیم رائج ہونا چاہئے تب جاکر یہ ممکن ہے کہ غریب اور پسماندہ طبقوں سے وابستہ بچے بغیر کسی رکاوٹ کے بہتر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں ،جو کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کا دعویٰ ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img