اتوار, جنوری ۲۶, ۲۰۲۵
-3 C
Srinagar

”علمداری“

(یہ کہانی علی محمد شیرازی کی کتاب ”تمثیل آدم” سے لی گئی ہے)

یہ کہانی غلام حسن المعروف حسن کاک کی ہے، جو ایک دور دراز گا¶ں کراولاور میں بسا ہوا تھا۔ اس نے یہ داستان اپنے بزرگوں سے سنی تھی اور ایک دن جب اس نے مجھے سنائی تو اس کے لہجے میں وہی عقیدت اور عشق جھلک رہا تھا جو نسل در نسل اس کہانی کے ساتھ چلا آ رہا تھا۔ یہ کہانی اللہ پر اس کے ایمان اور کشمیر کے بزرگ ولی، حضرت شیخ نور الدین نورانیؒ (المعروف علمدار کشمیر) کے کراماتی اثرات کا ثبوت تھی۔
حسن کاک کی کہانی میں ایک بزرگ خاتون، فاضی دید، کا ذکر ہے جو ایک نیک اور عبادت گزار عورت تھی۔ فاضی دید کے تین بھائی تھے: محمد راجب، شعبان، اور سبحان، اور ان سب میں سب سے زیادہ اللہ سے قریب سمجھی جاتی تھی۔ فاضی کی شادی عبدالخالق دار نامی ایک نیک دل اور پاکباز شخص سے ہوئی، جو زوہاما گا¶ں میں رہتا تھا۔ زندگی تو پُرسکون تھی، مگر فاضی اور خالق دار کے دل میں ایک ادھورا پن تھا؛ ان کے گھر میں کوئی اولاد نہ تھی، جس سے ان کے دلوں میں مایوسی اور غم بڑھتا جا رہا تھا۔
دعا کی تلاش
وقت گزرنے کے ساتھ، فاضی اور خالق دار نے دعا کے وسیلے کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ کشمیر کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ حضرت شیخ نورالدین نورانیؒ کے مزار پر دعا مانگی جائے، خاص طور پر جمعہ کی رات، تو اللہ اُس دعا کو قبول کرتا ہے۔ اس امید کو دل میں بسائے، فاضی اور خالق دار نے فیصلہ کیا کہ فاضی ہر جمعہ کی رات علمدار کشمیر کی زیارت پر جائے گی اور اللہ سے اولاد کے لیے دعا کرے گی۔ فاضی نے یہ سفر شروع کیا، اور ہر جمعہ کی رات وہ رات بھر دعا میں مصروف رہتی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ہوتے اور دل سے التجا اٹھتی، ”اے میرے رب! میرے دامن کو اولاد کی نعمت سے بھر دے۔”
امید کی کرن
چھ مہینے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ فاضی کی دعا¶ں میں گہرائی بڑھتی گئی اور بالآخر ایک رات، جب اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور اس کا دل رقت سے لرز رہا تھا، اللہ نے اس کی دعا قبول کر لی۔ اُس کے دل کو ایک عجیب سا سکون ملا، اور کچھ ہی دنوں بعد اُسے معلوم ہوا کہ وہ ماں بننے والی ہے۔ یہ خبر اُس کے لئے خوشی اور تشکر سے بھرپور تھی۔ خالق دار نے جب یہ خوشخبری سنی، تو اس کا دل بھی خوشی سے بھر گیا۔ اس نے فاضی سے کہا، ”اب اگلی جمعہ کی رات جب تم زیارت پر جا¶، تو وہاں خیرات کرنا تاکہ اللہ کا شکر ادا کیا جا سکے۔”
قربانی اور کرامت
فاضی اپنے دل میں شکر کے جذبات کے ساتھ زیارت پر جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ ہمیشہ کی طرح وہ پیدل ہی نکلی اور راستے میں دودھ گنگا کے کنارے پہنچ گئی۔ اس دن اچانک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی، اور دودھ گنگا دریا میں طغیانی آ گئی۔ فاضی کے لیے دریا پار کرنا مشکل ہوگیا، مگر اُس کا ایمان اُسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دے رہا تھا۔ جب وہ دریا کے بیچوں بیچ پہنچی، تو سیلاب کی ایک بڑی لہر آئی اور اُسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
اس مشکل گھڑی میں، اُس نے اپنے دل سے اپنے مرشد، حضرت شیخ نورالدین نورانیؒ کو پکارا، ”اے میرے پیر و مرشد! میں ایک گناہگار بندہ ہوں، مگر میری مدد کریں۔ اگر میں بچ گئی، تو میں اپنی اس اولاد کو آپ کے حوالے کردوں گی۔” اللہ نے اس کی دل کی پکار سن لی اور ایک موج اُسے کنارے کی طرف دھکیل کر لے آئی۔
نذر کا وعدہ
فاضی نے اس واقعے کو اپنے دل میں محفوظ رکھا اور کسی کو نہ بتایا۔ کچھ ماہ بعد، اُس کے ہاں ایک خوبصورت بیٹا پیدا ہوا جس کا نام اکبر رکھا گیا۔ دو مہینے کے بعد، فاضی نے اپنے شوہر کو اس سیلاب کا قصہ سنایا اور بتایا کہ اُس نے اپنے بیٹے کو حضرت شیخ نورالدین نورانیؒ کے حوالے کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ خالق دار نے یہ سن کر سوچ میں پڑ گیا، لیکن اس کا دل محبت سے نرم پڑ گیا۔ دونوں نے طے کیا کہ اکبر کو زیارت پر لے جاکر حضرت کے حوالے کر دیں گے۔
وفا کا امتحان
جب وہ اکبر کو زیارت پر لے گئے، تو وہاں موجود متولی اور دیگر عقیدت مندوں نے ان کا جذبہ محسوس کیا۔ وہاں موجود ایک شخص امبیر موت نے کہا، ”اگر تم نے یہ نیت کی ہے تو یہ بچہ مجھے دے دو، میں اسے حضرت کی خدمت میں رہ کر پرورش کروں گا۔” فاضی اور خالق دار نے دل پر پتھر رکھ کر اکبر کو امبیر موت کے حوالے کر دیا۔
جب وہ گا¶ں واپس پہنچے، تو لوگوں نے اعتراض کیا کہ فاضی نے یہ کیا کیا! خالق دار بھی دل برداشتہ ہو گیا اور غصے میں اپنے کپڑے پھاڑ ڈالے۔ اس نے فاضی پر الزام لگایا کہ اس نے غلط کیا ہے۔
درد کی گواہی
اگلے دن، خالق دار فاضی کو لے کر اپنے سسر کے گھر کراولاور گیا اور انہیں پوری کہانی سنائی۔ بزرگوں نے مشورہ دیا کہ اگر وہ اکبر کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے تو امبیر موت کو کچھ قیمت دے کر بچے کو واپس لے آئیں۔ امبیر موت نے یہ شرط قبول کر لی اور انہیں اکبر واپس مل گیا۔
لیکن اکبر کی واپسی پر وہ بیمار رہنے لگا اور کچھ بھی کھانے پینے سے انکار کر دیا۔ فاضی نے ایک دن خالق دار سے کہا، ”یہ اللہ کا فرمان تھا اور ہم نے اس کے خلاف قدم اٹھایا ہے۔ ہمیں اپنے وعدے کا احترام کرنا چاہیے۔”
بچوں کا انعام
آخری طور پر، دونوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اکبر کو امبیر موت کے پاس واپس چھوڑ آئیں گے۔ جب وہ دوبارہ امبیر موت کے پاس پہنچے، تو امبیر موت اور اس کی بیوی نے خوشی سے بچے کو گلے لگا لیا، اور فاضی اور خالق دار نے وعدہ کیا کہ وہ آتے رہیں گے اور اکبر کی خبر رکھتے رہیں گے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، اللہ نے فاضی کو مزید اولاد سے نوازا، اور اس کا دوسرا بیٹا پیدا ہوا جس کا نام مہدی رکھا گیا۔ آج زوہاما میں اکبر دار کی نسل آباد ہے اور کراولاور میں مہدی دار کی نسل پروان چڑھ رہی ہے۔
کرامت کی داستان
یہ کہانی اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی دعائیں سنتا ہے، خاص طور پر جب اُن کا عقیدہ پختہ ہو اور وہ اپنے وعدوں کو نبھائیں۔ حضرت شیخ نورالدین نورانیؒ کی کرامت اور اللہ کی محبت کا یہ قصہ آج بھی لوگوں کے دلوں میں عقیدت کے چراغ کی طرح روشن ہے۔

 

Popular Categories

spot_imgspot_img