رشید راہل
وادی کشمیر کے ہر علاقے میں کسی نہ کسی صوفی بزرگ کی درگا ہ اور قیام گاہ موجود ہے، جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان بزرگوں کی روشن کی ہوئی مشعل رہتی دنیا تک قائم رہے گی اور لوگ ان کے نقش قدم پر چل کر لوگوں کی خدمت بغیر کسی رنگ و نسل اور مذہب و ملت کے انجام دیتے رہیں گے۔شہر خاص کے گوجوارہ علاقے میں پیدا ہوئے نذیر احمد وانی گوجواری اسی مشن پر قائم ہیں اور باضابطہ لوگوں کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ انکے کے لئے دعائیں بھی کرتے رہتے ہیں۔1954 میں پیدا ہوئے نذیر احمد وانی نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ اسکول سے حاصل کی ۔اسلامیہ کالج سے گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انڈسٹریز اینڈ ٹیکسٹائلزحکومت ہند میں ملازمت حاصل کی۔کبھی کبھار قلم اُٹھا کر نعت گوئی کرتے تھے اور ایک دن اپنے ہی ساتھی ملازم نے اُنہیں (نذید احمد کو)سُنہ صاحب ویسو اننت ناگ کے پاس لے گئے۔سُنہ صاحب نے ایک پیالہ قہوہ پلا کر ہاتھ میں قلم تھما دی اور فرمایا آپ رزاق صاحب ریشی بانہال کے پاس جا ئیں وہی آپ کا استاد ہیں۔دونوں ساتھی ایک روز رزاق صاب بانہال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے دیکھتے ہی فرمایا سنہ صاحب کا قلم کہاں رکھا؟۔
یہ بات سن کر نذیر صاحب کا یقین بڑھ گیا اور پورے آٹھ سال ان ہی کی نگرانی میں رہے اور راز و نیاز کی باتیں اپنے دل میں سنبھالتے رہے۔ آٹھ سال گزرنے کے بعد موصوف صوفی بزرگ نے نذیر احمد کو مہند پہلگام میں رہا ئش پذیر ایک کشمیری پنڈت رمیش جی کے پاس بھیجا۔جو ہی پنڈت جی نے انہیں دیکھا تو زور دار لہجے میں کہا رزاق صاحب کو اور کوئی کام نہیں تھا، جنہوں نے آپ کو یہاں بھیجا ہے۔بہر حال نذیر احمد گوجواری صاحب نے کئی برس ان کے پاس ہی گذارے اور ہر صبح کھرم سرہامہ کی درگاہ میں نماز فجر انجام دیتے تھے اور یہاں سے ہی نانوائی سے روٹیاں بھی خرید کر لاتے تھے۔ان کے مطابق پنڈت جی نے انہیں یہ بھی ہدایت دی تھی کہ نماز سے فارغ ہونے بعد یہاں پر موجود مندر میں وہ شیو جی کی مورتی پر پانی کا ایک لوٹا بھی ڈال دیا کریں۔اس طرح یہاں موجو د پنڈت لوگوں کو برسوں تک یہ لگا کہ نذیر احمد بھی ایک پنڈت ہیں۔بہر حال ایک دن پنڈت رمیش جی نے مجھ سے کہا کہ آپ کے پاس اگر قلم ہے اور نعت اردومیں لکھتے ہیں ،زرا آج ایک کشمیری میں بھی لکھ لو۔نذیر احمد کہتے ہیں کہ ”میں نے عرض کیا کہ کشمیری میں آج تک نہیں لکھا ۔“یہ سن کر پنڈت جی نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور مجھے آنکھیں بند کرنے کو کہا۔نذیر احمد کہتے ہیں کہ چند لمحات بعد جب میں نے آنکھیں کھولی تو میں نے پہلا کشمیر ی نعت لکھا۔”پیر میانہ میہ کیاہ چُھم غم ۔۔۔ہوو تھم جلوئے رسول اکرمﷺ۔“اس طرح شاعری کا سلسلہ پوری طرح شروع ہوا ۔2017میں نذیر احمد کا پہلا شعری مجموعہ (درد نے)منظرعام پر آیا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اب سرکاری ملازمت سے فارغ ہو چکے ہیں اور ہفتے میں ایک دن اپنے گھر واقعہ الیٰ باغ بژھ پورہ میں لوگوں کے معاملات دیکھتے ہیں ، اور دو دن گوجوارہ میں گذارتے ہیں۔جہاں تک گوجواری صاحب کی شعری کا تعلق ہے، اس میں صوفیت کے رموز برابر موجود ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ میری ہمیشہ سے یہ کوشش رہتی ہے کہ میرے پاس ایسے لوگ آئیں جو اس مشن کو میرے بعد آگے لے جائیں، لیکن بہت کم لوگ اس کی جانب مائل ہورہے ہیں ۔زیادہ تر لوگ اپنے مسائل حل کرنے کی غرض سے آتے رہتے ہیں ۔ تاہم ہم اپنے مسائل بارگاہِ رب العالمین کے سامنے رکھتے ہیں اور شکر ہے کہ ہر ایک کا مسئلہان ہی کی بدولت حل ہو جاتا ہے ۔