سرینگر: نیشنل کانفرنس صدرِ صوبہ کشمیر ایڈوکیٹ شوکت احمد میر آج پارٹی ہیڈکوارٹر پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوریت میں دھونس و دباﺅ اور فرقہ پرستی کی کوئی جگہ نہیںہے، ہمارے ملک کے آئین کے صف اول پر ’سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف‘، ’خیال، اظہار، عقیدہ، دین اور عبادت کی آزادی‘اور مساوات کا پیغام درج ہے ۔انہوں نے کہا کہ انہی خصوصیات نے بھارت کو پوری دنیامیں سیکولر اور جمہوری ملک کا ہونے کا طرہ امتیاز دلاوایا تھا لیکن بدقسمتی سے گذشتہ برسوں کے دوران فرقہ پرستی کے رجحان، اظہارِ رائے کی آزادی پر قدغن، جمہوریت کی بیخ کنی اور مذہبی معاملات میں بے جا مداخلت نے ملک کے تصور کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے۔
ایک تحریری بیان کے مطابق انہوں نے کہاکہ ہریانہ میں گذشتہ دنوں کشمیری شال فروخت کرنےوالے کیخلاف ایک خاتون کے ذریعے نازیبا الفاظ استعمال کرنا ہو یا گذشتہ ماہ راجستھان میں 35کشمیری طلباءو طالبات کو چُن چُن کر معطل کرنا فرقہ پرست ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
انہوں نے کہاکہ اتر پردیش کے ضلع سنبھل میں جامع مسجد میں دوبارہ سروے کروانے سے پیدا شدہ حالات اور 5نوجوانوں کی ہلاکت بھی اسی فرقہ پرست ذہنیت کا نتیجہ ہے۔ 1991 کے عبادت گاہ قانون کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب اس قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ 1947 میں جو عبادت گاہ جس شکل میں تھی وہ اسی شکل میں رہے گی،اس قانون کو تبدیل نہیں کیا جا سکے گا تو پھر مسجد کا سروے کیوں کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ مساجد اور مذہبی مقامات کا سروے کرانا اور ان پر کسی دوسرے مذہب کے حق جتلانے کا سلسلہ ایک ساتھ بند ہونا چاہئے کیونکہ یہ قانون کے سریحاً خلاف ورزی ہے۔ ایڈوکیٹ شوکت میر نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں ملک کے سبھی فرقوں اور طبقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بیش بہا قربانیاں پیش کیں اور مسلمان اس میں کسی بھی پیچھے نہیں تھے۔ لیکن بدقسمتی سے آج مسلمانوں کو شک و شبہات کی نظر سے دیکھا جارہاہے، جو ملک کی سالمیت اور آزادی کیلئے سود مند نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح سے یو پی، ہریانہ اور دیگر جگہوں پر مسلمانوں کو ہراسان ، پریشان اور تنگ طلب کرنے کے لئے ہر روز نت نئے حربے اپنائے جارہے وہ ملک کے سیکولر کردار کیلئے سم قاتل ہے۔ صوبائی صدر نے حکومت ہند پر زور دیا کہ بیرونی ریاستوں میں کشمیریوںکی حفاظت کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اور کارگر اقدامات اُٹھائے جائیں اور ملک میں فرقہ پرستی کے رجحان کا قلع قمع کرنے کیلئے سخت قانون سازی کی جائے۔