عالمی سطح پر ہورہی موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات جموں کشمیر میں بھی دکھائی دے رہے ہیں ۔وادی میں قبل از قت شدید سردی اور حد سے زیادہ گرمی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ دنیا کے اس خطے میں بھی لوگوں کو آنے والے وقت میں مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ،جس کو دنیا بھر کے لوگ جنت سے تعبیر کرتے تھے۔وادی میں پانی کے ذخیرے دھیرے دھیرے سکڑتے جارہے ہیں ۔ندی ،نالے، جھیلیں اور چشمے بھی خشک ہورہے ہیں،جو تشویش کا باعث ہے۔موسمی اعتبار سے ملک کا یہ خطہ انتہائی دلچسپ مانا جاتا تھا۔ملکی اور غیر ملکی سیاح یہاںکے خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہوتے تھے۔جب پورا ملک گرمیوں میں جھلستا تھا تو لوگوں کو کشمیر کے پُر کیف موسم کی یاد آتی تھی اور وہ کچھ دنوں کے لئے یہاں تشریف آور ہوتے تھے لیکن اب گرم علاقوں کے لوگ یہاں بھی حد سے زیادہ گرمی محسوس کرتے ہیں۔جہاں تک سردیوں کے موسم کا تعلق ہے، ان ایام میںبھی سیاح یہاں اس لئے آتے تھے کہ وہ یہاں آکر سفید برفیلی چادر کا نظارہ کر سکےں، جس سے آنکھوں میں ٹھنڈک محسوس ہوتی تھی اور انسانی روح تازہ ہوجاتی تھی ۔اس شدید برف باری سے نہ صرف یہاں کے کھیت کھلیان موسم گرما میںسرسبز و شاداب رہتے تھے بلکہ اچھی فصلوں کی بہار بھی دیکھنے کو ملتی تھی۔گزشتہ چند برسوںسے یہاں کے موسمی حالات میں بہت حد تک تبدیلی آچکی ہے ۔جس پرماہرینِ موسمیات تشویش کا اظہار کرتے رہتے ہیں وہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سرکار اور انتظامیہ کوبھی کسی حدتک اس مسئلہ کےلئے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگوں نے قدراتی وسائل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرکے اپنے پیروںپر کلہاڈی ماری ہے اور انتظامی افسران کوبھی اس معاملے میں کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔سڑکوں کی تعمیر کے نام پر پہاڑوں کو مسمار کیا جارہا ہے اور زراعی زمین پر بڑی بڑی کالینیاں تعمیر کی جارہی ہیں۔شہروں اور قصبوں سے برآمد ہورہے کوڑا کرکٹ کو آبی پناہ گاہوں کے حوالے کیا جارہا ہے۔ولر،آنچاراور ہوکرسر اس کی مثال ہے، جو دھیرے دھیرے ختم ہو تے جارہے ہیں۔حال ہی میںماحولیاتی پالیسی گروپ (ای پی جی) نے میرگنڈ ویٹ لینڈ کی بگڑتی ہوئی حالت کی اعلیٰ سطحی انکوائری کا مطالبہ کیا۔آبی ذخائر کے تحفظ کے لئے کام کرنے والے اس گروپ نے ایک بیان میں ہے کہ کشمیر کے آبی علاقوں کو درپیش ماحولیاتی چیلنجزسے نمٹنے کے لیے مسلسل کوششوں کی ضرورت ہے ۔
گزشتہ دنوں ماحولیاتی پالیسی گروپ (ای پی جی) نے ”میرگنڈ ویٹ لینڈ “کا تفصیلی دورہ کیا، جسے میرگنڈ ”جھیل“ بھی کہا جاتا ہے، جو سری نگر سے گلمرگ کے راستے پر 16 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ تقریباً 4 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا پرندوں کا ایک فروغ پذیر پناہ گاہ جو بنیادی طور پر سکھ ناگ نالہ اور جہلم فلڈ سپل چینل سے بھرا ہوا تھا، اب یہ ویٹ لینڈ بالکل ویران حالت میں ہے۔ ماحولیاتی پالیسی گروپ نے میرگنڈ ویٹ لینڈ کی تشویشناک حالت پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے، جو بدانتظامی، بروقت مداخلت کی کمی اور غیر حساسیت کی وجہ سے اب ایک خشک زمین کی تزئین میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اس طرح کی دوسری متعدد آبی پناہ گاہیں ،جن کی حالت بھی بگڑ چکی ہے۔یہاں ہر موسم سرما میں مختلف ممالک سے مہمان پرندے خوراک کی تلاش میں آتے رہتے ہیں ۔اس سال بھی مہمان پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔یہ منظر نہ صرف کشمیر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا تا ہے بلکہ اس سے سیاحتی سرگرمیوں کو بھی فروغ ملتا ہے ۔
عوامی حکومت کو اب ماضی میں جھانکنے کی بجائے ،اس حساس مسئلے کی جانب توجہ مرکوز کرنی چاہیے ۔عوامی نمائندوں کو ایوان اسمبلی میں شور شرابہ اور سیاسی پیچ تیار کرنے کی بجائے ایسے حساس مسائل کی جانب حکومت کی توجہ مبذول کر نی چاہیے ۔جنوبی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کو ٹراﺅٹ مچھلی ڈسٹرکٹ کہا جاتا ہے ،وہاں بھی پانی کی قلت کے سبب آبی مخلوق کو خطرہ لاحق ہوچکا ہے ۔یہ آنے والے ایام کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی کہہ چکے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی سب سے بڑا چیلنج ہے ۔اس لئے ضروری ہے کہ ہم سب کو مشترکہ کوششیں کرکے اس خطر ناک چیلنج کا مقابلہ کرنا ہوگا ۔حکومت پالیسی ترتیب دے اور عوام پالیسی پر عمل در آمد کو یقینی بنائے ۔تب جا کر ہمارا مستقبل محفوظ رہ سکتا ہے ۔