بدھ, دسمبر ۴, ۲۰۲۴
2.9 C
Srinagar

اسکول صرف ایک عمارت ہی نہیں ہے

 

شاہ محمد ماگرے ڈوڈہ،جموں

بچوں کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی نشوونما کسی بھی قوم کا مستقبل بناتی ہے، اور اسکول ان کی نشوونما میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کو اچھی صحت، مضبوط ذہنی صلاحیتیں اور معاشرتی اقدار بھی سکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسکول کا ماحول اور اساتذہ کا رویہ بچوں کی شخصیت پر گہرا اثر ڈالتے ہیں، جو آگے چل کر ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہاں بچوں کو نہ صرف کتابی علم دیا جاتا ہے بلکہ ان کی ذہنی صلاحیتوں کو بھی نکھارا جاتا ہے۔ کلاس روم کے مباحثے، گروپ سرگرمیاں، اور تخلیقی پروجیکٹس بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے ہیں۔

 

اساتذہ کو چاہیے کہ وہ سوالات کو فروغ دیں اور بچوں کی فکر کو آگے بڑھانے کی ترغیب دیں تاکہ ان کا دماغ وسیع اور مثبت سوچ کا حامل بنے۔ تعلیم کے علاوہ بچوں کی جسمانی صحت بھی اہم ہے۔ اسکولوں میں کھیل کود اور جسمانی سرگرمیاں بچوں کے جسمانی نشوونما کو بہتر بناتی ہیں۔ بچوں کو کھیل کے میدان میں مختلف کھیلوں میں شامل کیا جائے تاکہ ان کی جسمانی صلاحیتیں بھی بہتر ہوں اور صحت مند زندگی گزارنے کی عادت پیدا ہو۔ اسکولوں کو چاہیے کہ وہ باقاعدہ کھیلوں اور جسمانی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کریں۔ اس سلسلے میں ڈوڈہ کے رہنے والے سبگددوش ماسٹر محمد شفیع کہتے ہیں کہ اپنے آپ سے عہد کیجئے کہ آپ اپنا اسکول ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ آپ کے پرنسپل، اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ آپ کے رابطے میں رہیں گے تاکہ جب آپ کسی اعلیٰ عہدے پر پہنچ جائیں تو انہیں آپ پر فخر ہو، اور آپ اپنے اسکول اور یہاں کے طلبہ کیلئے کچھ بہتر کرسکیں۔

سماجی کارکن ریحانہ بانو کہتی ہیں کہ کالج کی زندگی ہو یا عملی زندگی، اِن سیڑھیوں پر قدم رکھنا اسکول ہی سکھاتا ہے،اگر غور کریں تو احساس ہوگا کہ بچپن سے لے کر نوجوانی تک، انسان کا سفر اسکول ہی میں طے ہوتا ہے، اسی مدت میں وہ ذہنی،جسمانی اور نفسیاتی طور پر نشو ونما پاتا ہے،اسی عرصے میں اس کی تربیت ہوتی ہے۔ اسکول کی لائبریری سے کتابیں لینا اور اسے پڑھنا،یہ قیمتی یاد غالباً ہر طالب علم کے ذہن میں ہمیشہ رہے گی۔ہر انسان جونیئر کے جی سے لے کر دسویں تک اسکول میں تقریباً ۱۲ سال گزارتا ہے۔ بیشتر طلبہ ایسے ہیں جو ایک ہی اسکول میں اپنی زندگی کے اہم سال گزارتے ہیں جبکہ چند ایسے ہوتے ہیں جو بحالت مجبوری اسکول بدلتے ہیں۔ اسکول میں گزارے گئے سال اہم اس لئے بھی ہوتے ہیں کہ اسی مدت میں طالب علم ذہنی اور جسمانی طور پر نشو ونما پاتا ہے۔ یہی وہ مدت ہے جس میں طالب علم کو صحیح غلط اور اچھے برے میں فرق کرنا آتا ہے

لیکن اسکول میں گزارے گئے یہ ۱۲ سال صرف چند افراد ہی کی زندگی کا اہم حصہ بن پاتے ہیں اور وہ ان سے جذباتی طور پر جڑے ہوتے ہیں۔ اسکولی تعلیم مکمل کرلینے کے بعد بیشتر طلبہ اپنے اسکول کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھتے۔ اسکول کے گیٹ کے سامنے سے گزر جاتے ہیں لیکن اندر جاکر اپنے اساتذہ، مددگار عملہ اور پرنسپل سے ملاقات نہیں کرتے۔ وہی اسکول جو ہر انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، صرف ایک عمارت بن کر رہ جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ کالج میں آنے یا عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد اسکول کا احاطہ ہو یا اس سے جڑی اشیاء جیسے کاپی، کتابیں، کمپاس بکس، جیومیٹری بکس، کلر کے ڈبے، برش اور پیلٹ، لنچ باکس، پانی کی بوتل، یونیفارم، جوتے، جرابیں، اسمبلی ٹائم، ریسس، رنگ برنگے رین کوٹ اور چھتریاں، اسکول بس/وین/رکشا، سبھی سے جذباتی وابستگی ختم ہوجاتی ہے۔ انسان کو اسکول کی یاد شاذ ونادر ہی آتی ہے۔ وہ اسکول جاکر وہاں کے درو دیوار کو محسوس کرنے یا تدریسی اور غیر تدریسی عملے سے ملنے کی کوشش نہیں کرتا۔ یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔

مقامی صحافی بابر نفیس کہتے ہیں کہ ہر طالب علم کو چاہئے کہ وہ تا عمر اپنے اسکول سے جڑا رہے۔ایک بچے کی نشوونما میں اسکول کا کردار کتنا اہم ہے؟ یہ سوال ہر انسان خود سے پوچھے۔ یہاں سکھائی جانے والی باتیں اسے زندگی بھر یاد رہتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ والدین بچوں کے پہلے استاد ہوتے ہیں لیکن اساتذہ ان کے دوسرے والدین ہوتے ہیں۔ ایک بچہ اسکول میں اساتذہ کے ساتھ اتنا ہی وقت گزارتا ہے جتنا وہ اپنے گھر میں والدین کے ساتھ۔ اسکول بچے کو منظم تعلیم فراہم کرتا ہے اور اس کی ذہنی، جسمانی اور نفسیاتی نشوونما کو فروغ دیتا ہے۔ یہاں انسان سیکھتا ہے کہ ٹیم ورک کیا ہے، اچھے اخلاق کیا ہوتے ہیں، اتحاد کی طاقت کیا ہے، اشتراک کسے کہتے ہیں اور ذمہ داریاں کیسے نبھائی جاتی ہیں۔ جیسی تربیت وہ اسکول میں حاصل کرتا ہے، وہ اس کے کردار میں نکھار پیدا کرتی ہے جو عمر بھر اس کے ساتھ رہتی ہے۔ اسکول کے احاطے میں انسان اپنی فطری صلاحیتوں کو دریافت کرتا ہے اور انہیں فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تمام تجربات اس کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں جو عملی زندگی میں اسے ایک کامیاب انسان بننے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

سماجی کارکن نشاط قاضی نے بتایاکہ اسکول، کالج میں جانے کی سیڑھی ہے۔ اسکولی تعلیم کے بغیر انسان کالج میں نہیں جاسکتا۔کالج کی ایک طالبہ خان سہرش کہتی ہیں کہ کامیاب زندگی گزارنے اور اپنے خوابوں کو پانے کیلئے کالج انتہائی اہم ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے بعد انسان اچھی ملازمت حاصل کرسکتا ہے اور بہتر زندگی گزار سکتا ہے۔معاشرے میں رہنے کا ہنر،تعلیم کے بغیرانسان معاشرے میں صحیح طریقے سے رہنے کا ہنر نہیں سیکھ سکتا۔ اسکول میں اسے سماج کے مختلف طبقات کے طلبہ سے ملنے جلنے کا موقع ملتا ہے۔ کم عمر میں انسان سمجھتا ہے کہ دیگر افراد کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ وہ ان کے ساتھ وقت گزارتا ہے، ان میں سے چند کو دوست بناتا ہے اور یہ دوستی عام طور پر تاعمر قائم رہتی ہے۔ اگر انسان اسکول نہ جائے تو شاید وہ اپنی عمر اور سماج کے دیگر طبقات کے لوگوں سے نہیں مل سکے گا۔ اس طرح اس کا سماجی دائرہ محدود ہوجائے گا۔

ایک نوجوان عاقب وانی نے کہا کہ اسکول صرف نصابی کتابوں تک محدود نہیں رہ گیا ہے بلکہ ٹکنالوجی کی ترقی نے اس میں کئی تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ انسان کی زندگی میں اسکول کو وہ اہمیت حاصل ہے، جو آج سے پہلے کبھی نہیں تھی۔ اسے بچے کی زندگی کا پہلا اور سب سے اہم قدم مانا جاتا ہے۔ آج اسکول اتنے ہائی ٹیک ہوگئے ہیں اور نصاب میں ایسی تبدیلیاں کی گئی ہیں کہ طلبہ نصابی کتابوں کے علاوہ اپنے مشاغل کو فروغ دے سکتے ہیں، ان میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں، بنیادی آداب سیکھ سکتے ہیں، ملٹی ٹاسکنگ میں مہارت حاصل کرسکتے ہیں، سماجی مہارتوں کو فروغ دے سکتے ہیں، اور ایسی ہی بہت سی چیزوں سے اسکول اپنے طلبہ کو لیس کرتا ہے۔

اس سلسلے میں ژونل ایجوکیشن افیسر بھٹیاس چوہدری سلام دین نے بتایا کہ اسکولوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ تدریسی عملے پر بھی دھیان دیا جا رہا ہے ا۔سکول میں کھیلنے کے میدان اور کئی طرح کے انتظامات کئے جارہے ہیں، حکومتوں کی جانب سے بھی اس طرح کا ماحول تیار کرنے کی حکمت عملی اپنائی جاری ہے۔بچوں کی نشوونما میں اخلاقیات اور معاشرتی اقدار کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ اسکول بچوں کو تعاون، احترام اور محبت کا درس دے سکتے ہیں۔ ان کو اس بات کی تعلیم دی جانی چاہیے کہ وہ دوسروں کی مدد کریں، اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھا رویہ اختیار کریں اور معاشرتی ذمہ داریاں نبھائیں۔بچوں کی بہترین نشوونما کے لیے اسکول، والدین اور معاشرے کا کردار کلیدی ہے۔ اسکولوں کو چاہیے کہ وہ بچوں کو ایک جامع ماحول فراہم کریں جہاں وہ جسمانی، ذہنی، اور اخلاقی طور پر نشوونما پاسکیں۔ اس سے نہ صرف ایک مضبوط فرد بلکہ ایک مضبوط قوم بھی تشکیل پائے گی۔

Popular Categories

spot_imgspot_img