دنیا کے کسی بھی ملک ،ریاست اور علاقے کے لوگوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ ترقی کے منازل طے کر کے خوشحال زندگی گذار یں۔خوشحال زندگی کے لئے لازمی ہے کہ حکمرانوں کے پاس آمدنی کے اچھے خاصے وسائل مو جودہوں ،جنہیں وہ بروئے کار لاکر یہاں سے جمع ہونے والی آمدنی عام لوگوں کی فلاح و بہبود پر خرچ ہو اورلوگوں کی بنیادی ضروریات یقینی بنے۔پانی ،بجلی ،رابطہ سڑکیں ،پُل اور اسکول و دانشگاہوں کی تعمیر ممکن ہو۔جموں کشمیر( یو ٹی) کا جہاں تک تعلق ہے، اس کے پاس بہت سارے وسائل موجود ہیں۔اچھے خاصے جنگلات ،پانی کے ذخیرے،معدنیات کے علاوہ یہاں بہت ساری خالی زمین ہیں ،جن کا بہتر استعمال کرکے اس خطے کے لئے آمدنی کے وسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔اس خطے میں سیاحتی شعبے کے ساتھ ساتھ دستکاری شعبہ ہے ،جہاں یہ گنجا ئش موجودہے کہ ان شعبوں کو وسعت دینے سے عام لوگوں کو فائدہ مل سکتا ہے۔جموں وکشمیر میں اچھی خاصی سرکاری زمین بھی ہے، جو خالی پڑی ہے جبکہ کچھ رقبہ پر لوگوں نے بہت پہلے قبضہ کر کے ان پر مکانات اور دکانات تعمیر کئے ہیں ۔اگر چہ یہ زمین سرکاری ریکارڈ میں کائچرائی اور بنجر قدیم درج ہے ۔تاہم اب شہری علاقوں میں مال مویشی بھی نہیں ہیں، جو اس زمین کے اصل حقدار ہوتے تھے جہاں لوگ ان موشیوںکو چرواتے تھے۔اس زمین کو اگر سرکار لوگوں کو مخصوص رقومات کے عوض ان کے نام درج کرتی ہے، تو اس عمل سے سرکار کو اچھی خاصی آمدنی حاصل ہو سکتی ہے جسکو لوگوںکی تعمیر و ترقی کے لئے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کی سربراہی والی حکومت نے روشنی اسکیم کے تحت اس قانون کو بنایا تھا ،تاہم اس اسکیم سے چند سرمایہ داروں نے ہی فائدہ اُٹھایا تھا اور پھر یہ اسکیم ہی غائب کر دی گئی۔اگر موجودہ حکومت اس طرح کا قانون بناتی ہے کہ جس کسی کے پاس 5یا 10 مرلے سرکاری زمین زیر قبضہ ہے جس پر ان لوگوں نے تعمیرات کھڑے کئے ہیں ،کو قیمت کے عوض فروخت کرنی چاہئے تاکہ ان لوگوں کو بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مالکانہ حقوق مل جائیں اور سرکار کو بھی اچھی خاصی آمدنی حاصل ہو جائے گی ،جس کو فلاحی کاموں میں صرف کیا جاسکتا ہے۔