جمعہ, مئی ۹, ۲۰۲۵
18.4 C
Srinagar

قرارداد کی حیثیت کیا؟

جموں کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اجلاس کے تیسرے دن کی کارروائی کے دوران اُس وقت ہنگامہ آرائی کے مناظر دیکھنے کے ملے، جب جموں کشمیر کے نائب وزیر اعلیٰ سُریندر چودھری نے ایون میں آئینی ضمانت کیساتھ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی سے متعلق قرار داد ایون میں پیش کی اور وزیر تعلیم وصحت سکینہ مسعود ایتو نے اس قرار داد کی تائید کی اور بی جے پی ممبران نے یک جُٹ ہو کر اس قراراد کی مخالفت کی ،زبردست شور شرابے کے بیچ اسپیکر نے اس قراد داد کو منطور کیا اور ایون کی کارروائی ملتوی کی۔5اکتوبر 2019کو ملک کے پارلیمنٹ میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ جموں کشمیر کی اس خصوصی پوزیشن کا خاتمہ اس لئے کیا جارہا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے یہاں عام لوگوں کو مختلف مرکزی اسکیموں سے استفادہ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔انہوں نے اُس وقت یہ بات بھی دہرائی تھی کہ جموں کشمیر کی یہ خصوصی پوزیشن چند سیاستدانوں کے لئے ہی فائدہ مند تھی، جواختیارات کا غلط استعمال کر کے عیش وعشرت کی زندگی گذار تے ہیں اور عام لوگوں کو مشکلات میں پھنسا دیتے ہیں۔

انہوں نے جموں کشمیر میں بڑھتی ہوئی ملی ٹنسی کو بھی اس پوزیشن کےساتھ جوڑ دیا تھا کہ اس کی آڑ میں ملک مخالف سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں اور جموں کشمیر میں تشدد کو ہوا مل رہی ہے۔بہرحال جموں کشمیر کی اسمبلی نے شور شرابے کے بیچ اس قرار داد کو منظور کیا ہے اور اب اس کو ایل جی کے پاس بھیجا جائے گا ،تاکہ وہ اس کو دلی تک پہنچا سکےں۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا ایل جی اس منطور شدہ قرار داد کو دلی روانہ کرپائیں گے یا پھر راج بھون کی الماریوں میں ہی یہ قرار داد ھول چاٹتی رہے گی۔1996کے پُر تشدد حالات میں جب ڈاکٹر فاروق عبدللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس نے مسند اقتدار سنبھالا تھا، تب انہوں نے اسمبلی کے ایوان میںاکثریت کے ساتھ اٹانومی کی قراد داد بھی پاس کی تھی اور اُس وقت کی مرکزی حکومت کو یہ قرار داد ارسال کی گئی لیکن نہ ہی اٹانومی ملی اور نہ ہی اس قرارداد کا کوئی سُراغ ملا، تب سے اب تک حکومتیں بھی بدل گئیںاور حالات بھی اب دنیا کے ساتھ ساتھ ملک میں بھی بے شمار تبدیلیاں آچکی ہیں۔جموں کشمیر ریاست( یوٹی) بن گئی اور یہ ریاست مزید دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔وزیر اعلیٰ نے ایوان میں گزشتہ روز یہ بات بھی دہرائی تھی کہ اب ہم اس ایوان میں لداخ کے ممبران کی آواز نہیں سن پائیں گے، باالفاظ دیگر انہوں نے سابقہ ریاست کی تقسیم کو عملی طور تسلیم کیا ہے۔پانچ سال کی مدت ہو گئی ،اب سیاستدانوں کو مرکزی حکومت کا تاریخ ساز فیصلہ یاد آگیا ۔وہ ان پانچ برسوںکے دوران عوامی تحریک چلاسکتے تھے ،جیل جاسکتے تھے لیڈرانہ کردار ادا کرسکتے تھے ،لیکن ایسا کچھ بھی نہیں دیکھنے کو ملا۔بہر حال ایوان میں قرار داد منظور کرنے سے سرکار کی شبیہ خراب ہونے سے بچ سکتی ہے کیونکہ انہوں نے لوگوں سے اسی بنا پر ووٹ حاصل کئے تھے ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ آج تک دنیا میں جتنے بھی فیصلے حکمرانوں نے کئے ہیں، کوئی بھی فیصلہ آج تک واپس نہیں ہو ا ہے بلکہ گھڑی کی سوئی آگے کی طرف چلتی رہی ۔دیکھنا یہ ہے کہ مرکز ملک کی بعض ریاستوںکی طرز پر جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دے سکتاہے یا پھر حسب سابقہ اس قرار داد کا حشر وہی ہوگا جو دیگر قرار داد کا ہوا تھا۔ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img