ہند۔ چین افواج کے درمیان پُرامن سرحدیں رکھنے پر اتفاق رائے ہو چکا ہے ،جس سے دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات قائم ہونی کی اُمید یں پیدا ہوچکی ہیں۔فوجی ترجمان نے اپنے ایک بیان میں کہاہے کہ مشرقی لداخ کے دمچوک سیکٹر میں ملک کی فوج نے گشت شروع کیا ہے، جو گزشتہ چار برسوں سے رُکا پڑا تھا۔دیوالی کے موقعے پر دونوں طرف کی فوج نے ایک دوسرے میں مٹھایاں تقسیم کیں جو ایک نیک شگون مانا جاتا ہے۔سال 2020میں ہند۔ چین سرحد پراُس وقت تناﺅ پیدا ہوگیا تھا، جب دونوں طرف کی فوجیوں نے ایک دوسرے کے خلاف زور آزمائی کی تھی، جس دوران دونوں جانب جانی نقصان ہواتھا اور اس طرح جنگ کا ماحول پیدا ہو ا۔بہر حال چار سال بعد دونوں جانب کی فوج نے ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کا ماحول قائم کر کے دنیا کو ایک نیا پیغام دیا ہے کہ برصغیر کے یہ دو اہم ممالک تعمیر و ترقی اور عوام کی خوشحالی پر یقین رکھتے ہیں۔
اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے کہ برصغیر کے یہ دو ممالک اگر چا ہیں تو پوری دنیا پر راج کرسکتے ہیں کیونکہ بھارت اور چین برصغیر کے دو اہم ترقی یافتہ ممالک ہیں، جو نہ صرف آبادی کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں بلکہ فوجی اور تجارتی اعتبار سے بھی یہ دو ممالک نہایت ہی طاقتور مانے جاتے ہیں۔اگر ان دو ممالک کے درمیان دوستی بن جاتی ہے، تو دنیا کی کوئی بھی طاقت برصغیر کی جانب آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتی ہے۔چین اور بھارت دنیا کے تمام ممالک کے لئے تجارتی منڈیاں ہیں۔دنیا کے بیشتر ممالک میں تیار کیا جارہا ساز و سامان ان دو ہمسایہ ممالک میں بہ آسانی فروخت ہوسکتا ہے جبکہ یہاں تیار ہونے والا ساز وسامان بھی اُن ممالک تک پہنچ سکتا ہے،جسے باہمی ٹریڈ کہا جاتا ہے ۔ اس طرح یہ دونوں ممالک مزید ترقی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں اور دنیا کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں۔دنیا کے طاقتور ممالک ان دو ہمسایہ ممالک کے درمیان دوستی کا ماحول دیکھنا پسند نہیں کرتے ہیں کیونکہ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ ان دو ہمسایہ ممالک کی دوستی میں نہ صرف ان طا قتور ممالک کا تجارتی نقصان ہے بلکہ برصغیر میں ان عالمی طاقتوں کی گرفت بھی کمزور پڑ سکتی ہے۔
بہر حال فوجی سطح پر ہی سہی بھارت اور چین نے سرحدوں پرامن کاماحول قائم رکھنے پراتفاق رائے پیدا کیا ہے، جو تجزیہ نگاروں کی رائے میں ایک اہم بات مانی جاتی ہے۔فوجی سطح پر سرحدوں پر خاموشی کرنے اور ایک دوسرے کو کسی بھی ہلچل یا آواجاہی کے موقعے پر ایک دوسرے کو باخبر کرنے کی خبر سے دونوں طرف کے عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔لوگوں کا ماننا ہے کہ سفارتی سطح پر بھی اس حوالے سے مذاکرات شروع ہونے چا ہیے اور دونوں ممالک کو مختلف شعبوں میں اشتراک کر کے نہ صرف اپنے اپنے لوگوں کی تعمیر و ترقی ممکن بنانی چا ہیے بلکہ بر صغیر کے دیگر ممالک کوبھی اس دوستی سے فائدہ حاصل کرنا چاہیےاور جو طاقتیں ان دو اہم ترقی یافتہ ممالک پر بُری نظر رکھتے ہیں ،وہ بھی تبدیلی پر مجبور ہوں گی ۔اگر چہ ملک کیکئی شخصیات بھارت اور چین فوج کے درمیان معاہدے کا یہ کہہ کر خیر مقدم کرتی ہیں کہ وہ ہر حال میں امن و ترقی کے منتظر ہیں، تاہم انہوں نے کہا کہ زمینی سطح پر ان معاہدوں کو عملانے کے لئے سفارتی سطح پر بھی آگے بڑھنا چا ہیےاور دونوں طرف موجود منفی سوچ رکھنے والے افراد کی لگام کسنی چاہیے ، جو ان دو ممالک کی دوستی نہیں چاہتے ہیں۔