طویل مدت کے بعد جموں وکشمیر سے صدر راج کا نفاذختم ہو چکا ہے اور اب نئی عوامی سرکار تخت پر برا جما ں ہوگی ۔ جموں کشمیر کے عوام کو براہ راست اپنے منتخب نمائندوں کیساتھ رابطہ رہے گا ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جموں کشمیر کے عوام نے نئے ممبران اسمبلی کو اس لئے ووٹ دیا ہے کہ وہ اُن کے روز مرہ کے مسائل کے ساتھ ساتھ سیاسی اور دیگر مسائل بھی حل کر سکیںگے ۔جہاں تک وجود میں آرہی نئی سرکار کا تعلق ہے اُ سکے پاس کس قسم کے اختیارات ر ہیں گے اور اُن اختیارات کے دائرے میں رہ کر نئی مخلوط سرکار کس طرح عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے، یہ آنے والے وقت میںبخوبی پتہ چلے گا۔جہاں تک جموں کشمیر کے سیاسی مسائل کا تعلق ہے ،نئی سرکار کو ان میں کامیابی حاصل کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے،جب تک نہ اُ س کے پاس پوری طاقت نہیں ہوگی اور جموں کشمیر کا ریاستی درجہ بحال نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ جہاں تک جموں وکشمیرمیںحالیہ انتخابات کا تعلق ہے، ووٹران نے منقسم مینڈیٹ دیا ہے، اس عوامی مینڈیٹ سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جموں اور کشمیر کے لوگ الگ الگ سوچ اور ذہانت رکھتے ہیں۔ اسی لئے جموں کے لوگوں نے بی جے پی کو مینڈیٹ دیا ہے جبکہ وادی کے لوگوں نے نیشنل کانفرنس کو اپنا مینڈیٹ دیا۔
ان انتخابات میں ایک بات صاف دیکھنے کو ملی کہ وادی کے لوگ اب علیحدگی پسند نظریہ کو پسند نہیں کرتے ہیں ۔کیونکہ کالعدم تنظیم جماعت اسلامی نے کوئی بھی سیٹ ان انتخابات میں حاصل نہیں کی ہے جبکہ انجینئررشید اور سجاد غنی لون مشکل سے اپنی اپنی سیٹ بچا سکے جنہوں نے عوامی اجتماعات میں مسئلہ کشمیر،ظلم و زیادتی ،انٹیروگیشن ،قید و بنداور رائے شماری تک کا نعرہ دیا تھا، لیکن اس کے باوجود لوگوں کی اکثریت نے اُن کو ٹھکرا دیا ہے، جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ اس نظریہ اور اس طرح کی سوچ رکھنے والوں سے تنگ آچکے ہیں۔انہوں نے تمام حالات کو دیکھ کر نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیا ہے، جن کے بارے میںوادی میں یہ بات عام تھی کہ یہ غداروں کی پارٹی ہے اور اسی پارٹی کے بانی لیڈر مرحوم شیخ محمد عبدللہ نے مرکز کے ساتھ الحاق کر کے مذہبی بنیادوں پرپیش کئے گئے نظریہ کو ٹھکرا دیا تھا اور اس طرح قومی پرستییعنی نیشنل ازم کو پروان چڑھایا۔نئی مخلوظ سرکار کو مختلف مشکلات درپیش رہ سکتے ہیں لیکن دیکھنا یہ کہ عمر عبدللہ کس طرح ان مسائل کا مقابلہ کر سکتے ہیں اور کس طرح وہ مرکز کے ساتھ ٹکراﺅ کے باوجود وہ سب کچھ حاصل کر سکتے ہیں، جس کے لئے جموں کشمیر خاصکر وادی کے عوام نے انہیں ووٹ دیا ہے ۔ویسے عمر عبدللہ نے اب سیاست کے تمام نشیب و فراز دیکھ لئے ہیں، انہیں ایک تجروبہ حاصل ہو چکا ہے کہ کس طرح درمیانی راستہ نکال کر جموں کشمیر کے عوام کو بھی خوش رکھنا ہو گا اور مرکزی سرکار کو بھی اور وزیر اعظم کوبھی۔ اسی لئے انہوں نے کامیابی حاصل کرنے کے ساتھ ہی ایک انٹرویو میں کہا تھا ’ہمیں مرکز سے ٹکراﺅ نہیں بلکہ دوستانہ ماحول قائم کرنا ہوگاکیونکہ جو کچھ ہمیں حاصل کرنا ہے وہ مرکزی سرکار سے ہی حاصل ہو سکتاہے ،لہٰذا اُمید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقت میں جموں کشمیر کے عوام کو راحت و سکون کے ساتھ ساتھ عزت واحترام کا مقام بھی مل جائے گا اور اس طرح موجودہ مخلوط سرکا ر کی عزت و آبرو بھی عوام میں برقرار رہے گی ۔
