جموں کشمیر اسمبلی انتخابات کے بعد جس طرح کے نتایج سامنے آئے ہیں اُن سے بہت سی باتیں اُبھر کر سامنے آ رہی ہیں ۔اگر باریک بینی سے دیکھا جائے بی جے پی نے گذشتہ پانچ برسوں سے بلخصوص اور دس برسوں سے بلعموم جس طرح جموں کشمیر میں تعمیر و ترقی اور امن بحال کرنے کے لئے کام کیا ہے وہ کام واقعی یاد رکھنے کے قابل ہیں ۔انتظامی نظم و نسق کو بہتر ڈھنگ سے چلانے کے لئے جو طریقہ کا ر ایل جی انتظامیہ نے عملایا تھا اُس سے جموں کشمیر خاصکر وادی کے ملازمین کو ڈیوٹی کا پابند بنایا گیا ۔مختلف سرکاری محکموں میں کام کر رہے ایسے ڈاکٹروں،اساتذہ اور دیگر افسران کو اس بات کی یاد دلائی گئی تھی کہ وہ عوامی خدمتگار ہیں نہ کہ سیاسی عہددار جو اکثر و بیشتر غیر سرکاری سیمناروں ،سمپوزموں اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور ا س طرح اپنے فرایض کے ساتھ ناانصافی کرتے تھے ۔بہت سارے سیاستدان جو اقتدار میں نہ ہوتے ہوئے بھی عوام کی خدمت کرتے تھے اور انہیں درپیش مختلف مسائل حل کرنے میں دن رات محنت کرتے تھے لیکن اس کے باوجود اُن سیاستدانوں کو وادی کے لوگوں نے درکنار کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کو ووٹ دیا تاکہ وہ اُن کو اپنا کھویا ہو اسیاسی مقام واپس دلاسکے ۔
جہاں تک جموں صوبے کا تعلق ہے وہاں کی اکثریت نے بی جے پی کو منڈیٹ دیا۔اس طرح جموں کشمیر دو حصوں میں تقسیم ہوتے ہوئے نظر آرہا ہے جو سب سے بڑا مسئلہ آنے والے وقت میں بن جائے گا۔جہاں تک نیشنل کانفرنس کا تعلق ہے وہ ایک ایسی تنظیم ہے جس کے بانی مرحوم شیخ محمد عبدللہ نے جموںوکشمیر ریاست کی تعمیر و ترقی اور سیاسی سالمیت کے لئے مختلف کار نامے انجام دیئے ہیں،جس کا پھل آج تک جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کو عوامی سپورٹ کے تحت مل رہا ہے ۔یہ پہلا موقعہ ہے جب مرحوم شیخ محمد عبدللہ کے پوتے عمر عبدللہ جموں کشمیر یو ٹی اسمبلی کے وزیر اعلیٰ بن رہے ہیں اور نئے مرکزی قوانین کے تحت اُن کے پاس بہت زیادہ اختیارات نہیں ہونگے پھر بھی وہ کس طر ح جموں وکشمیر کے عوام کے جذبات احساسات اور دونوں صوبوں کی یکسان تعمیرو ترقی کے لئے کام کریںگےیہ عمر عبدللہ اور اُن کے دیگر سیاتھیوں کے لئے انتہائی سخت ہو گا کیونکہ گذشتہ روز بی جے پی کے کشمیر انچارج رام مادھو کا ایک بیان سامنے آیا ہے کہ جموں کشمیر کو چند شرائط پر ریاست کا درجہ دوبارہ دیا جائے گا ۔وہ شرائط کیا ہونگے اُن میں یہاں کے عوامی لیڈان اور عوام کو کہاں تک اپنے جذبات کو دبانا ہو گا یہ آنے والے وقت میں پتہ چلے گا۔
تاہم ایک بات صاف ہے کہ عمر عبدللہ کی سرکا ر کو کافی دشوار گذار راستوں سے چل کر منزل کو تلاشنا ہو گا اور اپنی سیاسی ساکھ کو کمزور ہونے سے بھی بچانا ہو گا اور اپنے عوام کے جذبات و احساسات سے کھلواڑ بھی نہیں کرنا ہوگا جنہوں نے نیشنل کانفرنس پر اپنے اعتماد کا کھل کر اظہار کیا ہے، تب جاکر وہ آنے والے وقت میں اپنے داد امرحوم شیخ محمد عبدللہ کا نام مزید روشن کر سکتا ہے او ر خود ایک عوامی لیڈر بن سکتے ہیں ۔ جہاں تک جموں کشمیر میں ہو ئے اسمبلی انتخابات کا تعلق ہے امریکہ جیسے دنیا کے طاقتور اور بااثر ملک نے ان انتخابات پر رائے زنی کرتے ہوئے اس سے جمہوریت کی کامیابی اور مظبوطی سے تعبیر کیا ہے جو ملک کی خارجہ پالیسی کیلئے کامیابی کی عکاسی کرتا ہے۔





