وزیر اعظم نریندر مودی نے جب 2014اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھالی ،تو انہوں نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ حاکمِ اعظم نہیں بلکہ خادم اعظم ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت کا آنے مقصد حکمرانی کرنا مقصود نہیں بلکہ عوام کی خدمت کرنا ہی ان کا بنیادی اصول اور مقصد ہے۔مورخین یا تاریخ دانوں کے مطابق ’بیورو کریسی ‘دو لفظوں بیورو اور کریسی کا مجموعہ ہے۔ بیورو سے م±راد دفتر اور کریسی سے م±راد نظام ہے جبکہ بیورو کریٹ سے م±راد دفتری سربراہ ہوتاہے۔ اسی لئے بیورو کریسی کو دفتری حکومت بھی کہا جاتا ہے۔ بیورو کریسی دراصل فرانسیسی نژاد لفظ ہے اور اس طنز آمیز لفظ کا اطلاق ایسی عاملہ یا انتظامیہ پر ہوتا ہے جس کا کام ضابطہ پرستی کے باعث طوالت آمیز ہو۔ اس اصطلاح کو اٹھارھویں صدی میں فرانس میں وضع کیا گیا جب کہ بعض افراد نوابی خطابات دے کر انہیں سرکاری عہدوں پر فائز کر دیا گیا تھا۔ نپولین کے دور حکومت میں سرکاری محکموں کو بیورو کہا جاتا تھا اور سرکاری عہدے داروں کو بیوروکریٹ۔اس قسم کے نظام حکومت کے ناقدین کی رائے ہے کہ اس نظام سے کام میں طوالت، تنگ نظری اور عدم توجہ پیدا ہوتی ہے اور عوام سے رعونت برتی جاتی ہے۔ مگر اس طریقہ کار کے حمایتی کہتے ہیں کہ اس سے فرض، باضابطہ پن، تسلسل کار اور اخلاق ٹپکتا ہے۔ ان مکاتب فکر کے علاوہ ایک نظریہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جدید ریاستوں میں جہاں آئے دن حکومتیں پیچیدہ منصوبے تیار کرتی رہتی ہیں، وہاں ضابطہ پرست عاملہ کا قوت حاصل کر جانا ناگزیر ہے۔
ملک پر کوئی بھی حکمران ہو، قانون نافذ کرنے اور عمل کرانے کی ذمہ داری سرکاری کارندوں (بیورو کریسی) پر ہوتی ہے۔ وہ محکموں کو چلاتے اور خادم بن کر عوام کی ضروریات پوری کرتے اور ان کی مشکلات کا ازالہ کرتے ہیں۔ اس لیئے اصطلاحی معنوں میں بیورو کریسی سے مراد سول سروس کا نظام ہوتا ہے جسے عرفِ عام میں استہزائیہ طور پر نوکرشاہی بھی کہتے ہیں۔سارے کام کرنا اکیلے انسان کے بس کی بات نہیں اس لئے نظامِ حکومت چلانے کے لئے ذمہ داریاں اداروں اور ا±ن سے منسلک افراد کو تفویض کر دی جاتی ہیں۔ یہ ادارے ایک ریاست کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، وزراءآتے جاتے رہتے ہیں، ان کے قلمدان تبدیل ہوتے رہتے ہیں ،مگر بیورو کریسی موجود رہتی ہے۔ البتہ نظامِ حکومت سنبھالنے کے بعد ہر حکومت کی یہ کوشش ضرور ہوتی ہے کہ وہ سیاسی انجینئرنگ کے ذریعے بیورو کریسی میں اکھاڑ پچھاڑ کرکے منظور نظر افراد کو بھرتی کرے۔ اس نظام میں چونکہ حکومت کے اعلیٰ سرکاری افسران پس پردہ حکومت چلا رہے ہوتے ہیں ،اس لئے ایک نظریہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ جدید ریاستوں میں آئے دن حکومتیں پیچیدہ منصوبے تیار کرتی رہتی ہیں ، وہاں ضابطہ پرست عاملہ کا قوت حاصل کرنا ناگزیر ہے۔مروجہ نظامِ حکومت سے قطعہ نظر بیورو کریسی امورِ مملکت چلانے کے لئے ناگزیر ہے مگر اس کا انحصار حکومتی ڈھانچے پر ہے کہ وہ اسے کیا کردار تفویض کر تا ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ بیورو کریسی ہی سب کچھ ہوتی ہے ،لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ ایک شہری کو بیورو کریٹ کے سامنے کھڑا ہوکر ہاتھ جوڑ کر اپنے روزمرہ مسائل کے حل یا مشکلات کا ازالہ کر وانے کے لئے منتیں کرنی پڑیں ۔شہریوں کو اپنے آئینی حقوق کے حوالے سے کسی بھی افسر کے سامنے سر جھکا نے کی بجائے فخر سے سر اٹھا کر اپنے مسائل کا ازالہ کرانے کے لئے قائل کرنا چاہئے کیوں وہ ہمارے ادا کردہ ٹیکسز سے ہی موٹی موٹی تنخواہیں لیتے ہیں جبکہ موجودہ نظام میں عوامی ٹیکسز سے ہی افسر سکالرشپ حاصل کرتے ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائر ہوتے ہیں ۔لہٰذا کوئی بھی بیورو کریٹ حاکم ِ اعلیٰ نہیں بلکہ خادم اعلیٰ ہی ہوتا ہے ۔اب جبکہ جموں وکشمیر میں ایک دہائی کے بعد عوامی حکومت بھی تشکیل پار رہی ہے اور عوامی نمائندے عوام کی نمائند گی ایوان کے اندر اور باہر کرنے کے لئے تیار ہونے کا دعویٰ کررہے ہیں ۔ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف بیورو کریسی سے منظور نظر ، سفارشی اور کرپٹ افراد کو نکال باہر کیا جائے بلکہ عوامی نمائندوں کو بھی ا±ن کی صلاحیتوں کے مطابق ذمہ داریاں تفویض کی جائیں۔ تبدیلی کے لئے ضروری ہے زمینی سطح پر جوابدہی اور شفافیت کو یقینی بنایا جائے ۔کیوں کہ تبدیلی کا راز جوابدہی میں ہی مضمر ہے ۔