پی ڈی پی، آزاد اُمیدواروںاور5نامزدارکان اسمبلی کے ہاتھوں میںنئی سرکار کی چابی
سری نگر/ 90رُکنی اسمبلی کیلئے ہوئے انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوںکی گنتی کا دن قریب آنے کیساتھ نئی سرکاربنانے کی اہم دعویدارجماعتوں بی جے پی اور نیشنل کانفرنس کے علاوہ کانگریس اور پی ڈی پی نے بھی آزاد امیدواروں کے ساتھ رابطہ قائم کرنے شروع کردیاہے تاکہ وہ حکومت سازی کیلئے درکارارکان اسمبلی کی تعدادتک پہنچ سکیں۔جے کے این ایس کے مطابق جموں وکشمیرکی نئی قانون ساز اسمبلی 90رُکنی ہوگی اور5ممبران کو نامزد کیاجائے گا،اوراس حساب سے دیکھاجائے توجس جماعت یااتحاد کے پاس 48ممبران اسمبلی کی حمایت حاصل ہوگی ،وہی جماعت یااتحاد اکثریت کیساتھ نئی سرکارتشکیل دے پائے گا،اوراس اعتبارسے دیکھاجائے تو’ ہنگ ہاو¿س‘ یعنی معلق اسمبلی کی چابی منتخب ہونے والے آزاد امیدواروں کے پاس ہے۔ایک میڈیا رپورٹ میں سیاسی مبصرین کاحوالہ دیتے ہوئے یہ دعویٰ کیاگیا ہے کہ 7سے 8 آزاد امیدواروں نے اچھی خاصی تعداد میں ووٹ حاصل کئے ہیں اور جموں ڈویژن میں یہ آزاد اُمیدوار اپنے حلقوں میں سیاسی جماعتوں کو حیران کر سکتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بی جے پی، کانگریس، نیشنل کانفرنس اور ڈی پی اے پی سے وابستہ ہیں جو اپنی پارٹیوں کے مینڈیٹ سے انکار پر انتخابی میدان میں کود پڑے۔خیال کیا جاتا ہے کہ کچھ آزاد امیدوار وادی کشمیر میں اپنے حلقوں میں سب سے آگے ہیں اور سیاسی جماعتوں کی سینئر قیادت نے ان سے رابطہ قائم کر رکھا ہے۔رپورٹ کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں کے سینئر لیڈران نے ان آزاد امیدواروں سے ٹیلی فونک رابطہ کیا ہے جو اپنی نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہیں۔ ذرائع نے بتایاکہ سیاسی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے درمیان ثالث بھی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکرہے کہ انتخابی دنگل میں مقابلہ نیشنل کانفرنس اور بی جے پی کے درمیان نظرآیا لیکن سیاسی منظر نامہ اسے مختلف ہے ،کیونکہ کانگریس اور پی ڈی پی کا نئی سرکارکی تشکیل میں اہم رول ہوگا۔کانگریس نے پہلے ہی نیشنل کانفرنس کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑکیاتھا جبکہ پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی پہلی ہی کہہ چکی ہیں کہ اُن کی جماعت کی حمایت کے بغیر نئی سرکار نہیں بنائی جاسکتی ہے تاہم انہوںنے کہاہے کہ سرکار بنانے کیلئے پی ڈی پی سیکولر جماعتوں کی حمایت کرے گی ۔سیاسی تجزیہ نگاروں کا مانناہے کہ اگر نیشنل کانفرنس کو کشمیرمیں اور کانگریس کوجموں خطے میں اچھی تعدادمیں سیٹیں حاصل ہوئیں تویہ دونوں جماعتیں پی ڈی پی کی حمایت سے نئی مخلوط یاملی جلی سرکار بنانے کی پوزیشن میں ہونگی ۔تاہم سیاسی تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ معاملہ اتنا سادھا بھی نہیں ہے کیونکہ اگر بی جے پی نے جموںکی کل43سیٹوںمیں سے 30تک درج کی ،تو کشمیرمیں اسکی درپردہ حمایت سے کامیاب ہونے والے ممبران اسمبلی اپنی حمایت بی جے پی کوہی دیں گے اوراس صورت میں 5نامزد کئے جانے والے ممبران کارول اورووٹ فیصلہ کن ہوگا۔قابل ذکر ہے کہ اسمبلی انتخابات 2024کے بعد اب 8اکتوبرکے انتخابی نتائج اور 5ارکان کی نامزدگی پرتوجہ مرکوزہوگئی ہے ،اوراس معاملے یعنی پانچ ارکان کی نامزدگی میں بی جے پی کوحریف جماعتوں پر برتری حاصل ہے ۔ جموں وکشمیرکی نئی قانون ساز اسمبلی 95رُکنی ہوگی ، جن میں 90منتخب اور 5 نامزد ہوں گے، یہ ایوان میں اکثریت کا نمبر 48 تک لے جائے گا۔چونکہ5ممبران اسمبلی کو مرکزی وزارت داخلہ کے مشورے پر لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعہ نامزد کیا جانا ہے،جموں وکشمیر کی نئی اسمبلی کےلئے5نامزدہونے والے ممبران میں2خواتین، 2کشمیری پنڈت بھی شامل ہیں جن میں سے ایک خاتون اور ایک پاکستانی مقبوضہ جموں کشمیرکا مہاجر ہوگا۔اہم بات یہ ہے کہ پانچوں نامزد کئے جانے والے ممبران اسمبلی کو اسمبلی میں اکثریت کے تعین سمیت تمام موضوعات پر ووٹنگ کا حق حاصل ہوگا۔ اس لئے بی جے پی کا بڑا موقع ہوگا اور اس کے لیڈروں کو نامزدگیوں میں جگہ ملنے کی امید ہے۔لیفٹیننٹ گورنر وزارت داخلہ کے مشورے کی بنیاد پر5 ارکان کو نامزد کریں گے۔ یہ عمل جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ2019 میں ترمیم کے بعد ہے، جس میں ان نامزدگیوں کو متعارف کرانے کےلئے26 جولائی 2023 کو مزید نظر ثانی کی گئی تھی۔یہ نظام پانڈیچیری کے قانون ساز ڈھانچے کا آئینہ دار ہے، جہاں4 نامزد ارکان پہلے سے موجود ہیں۔ تاہم، جموں و کشمیر میں یہ قدم قانون ساز کونسل کے خاتمے کے بعد اٹھایا گیا ہے اور 8 اکتوبر کو ووٹوں کی گنتی ختم ہونے کے فوراً بعد5 نامزد ارکان اسمبلی کا انتخاب کیا جائے گا۔1996 اور 2002 کی اسمبلیوں میں، کشمیری پنڈتوں میں سے ایک ایک منتخب ایم ایل اے تھے جن میں پیارے لال ہنڈو، جو کابینہ کے وزیر تھے اور رمن مٹو، جو وزیر مملکت بنے تھے۔ اس کے علاوہ 2002 کی اسمبلی میں نامزد خاتون ایم ایل اے کھیم لتا وکھلو تھیں۔ تاہم، 2014 کی اسمبلی میں کے پی کی کوئی نمائندگی نہیں تھی لیکن بی جے پی نے کے پی کے دو لیڈر سریندر امباردار اور گردھاری لال رینا عرف اجے بھارتی کو ایم ایل سی بنایا۔خواتین،کشمیری پنڈتوں اورپاکستانی مقبوضہ جموں وکشمیر کے مہاجرین میں ایم ایل اے کی نامزدگی کے لیے بی جے پی کے اندر زبردست لابنگ شروع ہو چکی ہے۔سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں دو خواتین ایم ایل ایز کی نامزدگی کا انتظام تھا لیکن ووٹ دینے کی طاقت کے بغیر۔چونکہ تمام 5 نامزد ایم ایل ایز کو ووٹنگ کے حقوق سمیت تمام اختیارات حاصل ہوں گے، اس لیے اکثریت کا نمبر48 ہوگا، جو بی جے پی کے لیے فائدہ اور حکومت کی تشکیل میں دیگر جماعتوں کے لیے نقصان ہوگا۔8اکتوبر کوانتخابی نتائج کے اعلان کے بعد5 ممبران اسمبلی کو نامزد کرنے کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے اور الیکشن کمیشن کے ذریعہ منتخب ایم ایل ایز کی فہرست کو حتمی شکل دی جاتی ہے۔





