جموں کشمیر اسمبلی انتخابات ختم ہو تے ہی ملک کے انتخابی کمیشن نے ضابطہ اخلاق قانون کے تحت انتخابات سے متعلق کئے جانے والے ایگزٹ پول پر 5اکتوبر کی شام تک پابندی عائد کرتے ہوئے ایک حکم نامہ جاری کیا، جس میں کہا گیاتھا کہ کوئی بھی ادارہ آج یعنی 5اکتوبر شام7بجے سے پہلے کوئی بھی ایگزیٹ پول جاری نہیں ہوگا جبکہ انتخابات یکم اکتوبر شام 6بجے ہی ختم ہو گئے تھے۔ اس حکم نامے کے مطابق خلاف ورزی کرنے والے ادارے کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی ۔بہرحال حکم حاکم سب کو تسلیم کرنا پڑتا ہے کیونکہ اللہ کی حکومت کے بعد وقت کے حکمران ہی اپنی مملکت کے حاکم اور مالک ہوتے ہیں۔یہ دوسری بات ہے کہ ان حکمرانوں کو بنانے والے عوام ہی ہوتے ہیں۔ملک کے انتخابی کمیشن اور مرکزی سرکار نے یہ بات تسلیم کی ہے کہ جموں کشمیر کے انتخابات کو کامیاب بنانے میں شوشل میڈیا کا اہم رول رہا ہے۔مختلف نشریاتی اور صحافتی اداروں نے ان انتخابات میں نمایاں رول ادا کیا ہے ۔سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہوئی انتخابی مُہم کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کی جانب سے کئے گئے انتظامات کو مختلف صحافتی اداروں اور شوشل میڈیا پلیٹ فارموں نے عام لوگوں تک پہنچایا، اس طرح یہ انتخابات کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوئے۔
یہاں یہ بات کہنا بے حد لازمی ہے کہ گذشتہ چند روز کے دوران چند یوٹیوبروں اور شوشل میڈیا پلیٹ فارموں نے جموں کشمیر میں ہوئے انتخابات کے بارے میں انتخابی کمیشن کی پابندی کے باوجود بھی ایگزیٹ پول جاری کئے ۔یہ دوسری بات ہے کہ ان ایگزیٹ پولوں کا نہ کہیں سر نظر آرہا ہے اور نہ ہی پیر۔کئی یوٹیوب چینلز نے اپنے ایگزیٹ پول میں جموں کشمیر کی سب سے بڑی اور پُرانی تنظموں کا نام ہی نہیں دکھایا کہ وہ کتنی سیٹوں پر جیت درج کر سکتی ہیں۔پھر بھی الیکشن کمیشن اور انتظامیہ یہ کہہ رہی سے کہ شوشل میڈیا اداروں نے ان انتخابات کے دوران اچھا رول نبھایا ۔بہرحال ہم کسی کے منہ میں اپنی زبان تو نہیں رکھ سکتے ہیں کیونکہ ہندوستان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں ہر فرد کو بولنے کی کھلی آزادی حاصل ہے یہ دوسری بات ہے کہ ایسے آزاد لوگوں پر حکمرانوں کے حکم یا انتخابی کمیشن کا ضابطہ اخلاق لاگو نہیں ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر سرکاری سطح پر درج صحافتی اداروں پر سرکاری قوانین کا اطلاق ہوتا ہے تو اُن آزاد نام نہاد یوٹیوبرز پر کیوں نہیں؟ جو کئی خدشات کو جنم دیتے ہیں ۔خبروں کے لئے لوگوں سے رقومات اینٹ لیتے ہیں ،سماج میں غلط افواہیں پھیلا کر عام لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ملک کے حکمرانوں کو ایسے شوشل میڈیا اداروں پر لگام کسنی چا ہیے جن کی وجہ نہ صرف ملک میں افرا تفرای کا ماحول پیدا ہوتا ہے بلکہ انتظامی نظم و نسق کو بھی نقصان پہنچ جاتا ہے۔ایسے خود ساختہ صحافیوں کے بارے میں سرکار اور انتظامیہ کیا پالیسی اختیار کرتی ہے جو مایک ہاتھوں میں لیکر ہر سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کے دروازوں پر صبح سویرے دستک دیتے ہیں اور اُن سے خبر کے بدلے مال وصول لیتے ہیں اور مختلف علاقوں میں جا کر لوگوں کو بلیک میل کرتے ہیں۔اس حوالے سے مرکزی سرکار اور جموں کشمیر کی وجود میں آرہی نئی سرکار کو مل کر کوئی لا ئحہ عمل مرتب کرنا ہو گا تاکہ جموں کشمیر میں شوشل میڈیا سے ہو رہی تباہی پر قدغن لگ جائے جو معاشرے کو زوال پذیر بنا رہا ہے۔





