جموں و کشمیر میں انتخابی در جہ حرارت روز بروز بڑھتا جارہا ہے اور اس بیچ سیاسی جماعتوں کے لیڈران ایک دوسرے کو غلط اور کمزور دکھانے کے لئے مختلف الزامات عائد کررہے ہیں۔ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالی جارہیہے اور ایک دوسرے کی پالیسیوں کو غلط ٹھرا رہے ہیں۔جہاں تک سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، آج تک جتنی بھی سیاسی جماعتوں نے پارٹی منشور جاری کئے ، ان میں سے کسی بھی جماعت نے جموںو کشمیر میں بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے سدباب کے بارے میںکسی قسم کی بات نہیں کی ہے ۔جہاں تک جموں کشمیر کی تاجر برادری کا تعلق ہے ،وہ بھی اس بات پر سخت ناراض دکھائی دے رہی ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ سیاسی جماعتیں انہیںیکسربھول چکی ہیں۔کسی بھی سیاسی جماعت نے یہاں کی تجارت اور اقتصادی ترقی کے حوالے سے کوئی بھی خاکہ اپنے منشور میں پیش نہیں کیا ہے۔جملہ سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں مسئلہ کشمیر،دفعہ 370،قیدیوں کی رہائی اور دیگر ایسی باتیں درج کی ہیں جن کی وجہ سے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران جموں کشمیر خاصکر وادی کے عوام کو کافی زیادہ نقصان سے دو چار ہو نا پڑا۔یہ تمام باتیں اس چیز کو واضح کرتے ہیں کہ ان سیاسی جماعتوں نے ایک بار پھر کھوکھلے وعدے اور دعوے کیے جبکھ جذباتوں کی ترجمانی کی ہے ۔جہاں تک ماحولیاتی آلودگی کا تعلق ہے، اس سے جموں کشمیر کے عوام کو اتنا بڑا نقصان ہونے کا اندیشہ ہے جس کی بھر پائی صدیوں تک پوری نہیں کی جاسکتی ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ ہمارے آبی ذخیرے پوری طرح سے ختم ہو رہے ہیں ،ڈل جھیل،آنچار ،مانسبل اور ولر جیسے اہم آبی ذخیرے سکڑتے جارہے ہیں ۔موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمارے گلیشئر ختم ہورہے ہیں ۔جنگلات کا صفایا ہورہا ہے،پہاڑوں کی کھدائی بلا دریغ کی جارہی ہے ،زرعی زمین کا خاتمہ کیا جارہا ہے ،زرعی زمین پر بستیاں آباد کی جارہی ہیں لیکن ہماری سیاسی جماعتوں کو صرف اور صرف سیاسیمعمالات پر نظر پڑ رہی ہے۔1947سے ہی اس قوم کے ساتھ سیاسی جماعتوں اور اس سے وابستہ لیڈران نے دھوکہ کیا ہے کبھی سبز رومال اور کبھی پاکستانی نمک دکھا کر،کبھی آزادی اور کبھی سیلف رول اور کبھی آٹانامی کے نام پر لوگوں سے ووٹ حاصل کئے گئے ہیں اور مسند اقتدار پر براجماں ہونے کے بعد ان منتخب عوامی نمائندوں نے صرف لوٹ کھسوٹ اور رشوت ستانی کو پروان چڑھایا ہے۔کسی بھی جماعت نے آج تک جموں کشمیر کے عام پڑھے لکھے آدمی کو سیاسی جگہ فراہم نہیں کی بلکہ صرف خاندانی راج کو فروغ دیا ہے ۔اس طرح کمزور طبقوں سے وابستہ پڑھے لکھے نوجوانوں کو تشد د پر اکسانے پرمجبور کیا گیاجس کی وجہ سے یہاں کی سیاسی جماعتوں پر سے بھروسہ ہی اُٹھ گیا۔اب جبکہ لگ بھگ چار دہائیوں کے بعد پہلی مرتبہ جموں کشمیر اسمبلی کے انتخاب نہایت ہی جوش و جذبہ کے ساتھ ہو رہے ہیں جن میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عام نوجوان بھی بطور آزاد اُمیدوار ں کی حیثیت سے میدان میں آچکے ہیں ،جو انتخابی سیاست کو شجر ممنوع قرار درہے تھے ،یہ ایک خوش آئند بات ہے لیکن ان میں سے جو بھی اُمید وار کامیابی حاصل کریں گے ، انہیں سب سے پہلے جموں کشمیر میں ہو رہی ماحولیاتی آلودگی کو کنڑول کرنے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے اور اس کے لئے ایک جامعہ پالیسی مرتب کرنی چاہیے تاکہ آنے والے مسائب سے جموں کشمیر کی عوام محفوظ رہ سکے۔