پیر, ستمبر ۱, ۲۰۲۵
25.3 C
Srinagar

آرٹیفیشل انٹیلی جینس: انسان ایک منٹ میں 800 الفاظ اور چیٹ بوٹ 75,000 الفاظ پروسس کرتا ہے

مانیٹرنگ ڈیسک

مصنوعی ذہانت کے استعمال نے جہاں تعلیم، تحقیق، ترقی اور صحت سمیت مختلف شعبوں میں تیز تر ترقی کی نئی راہیں کھولی ہیں وہیں تازہ ترین جائزوں کے مطابق مشینوں پر انحصار دنیا کے لیے نت نئے چیلنجز بھی پیدا کر رہا ہے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے فروغ پر کام کرنے والے ماہرین مصنوعی ذہانت کو تاریخ کی سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والی ٹیکنالوجی اور دنیا کی زیادہ سے زیادہ آبادی کو متاثر کرنے والا ایک بے مثال رجحان قرار دے رہے ہیں۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق، دینا کے ترقی پذیر ممالک خاص طور پر ڈیجیٹل معیشت کے ذریعہ پہلے سے کئی زیادہ رفتار ترقی کر سکتے ہیں۔ تعلیم اور تحقیق کے شعبوں میں دور دراز علاقوں کے مکین بھی اعلی تعلیم اور ٹیکنالوجی کی مہارت حاصل کر سکتے ہیں۔ پہلے ہی پاکستان، بھارت اور کئی دوسرے ملکوں میں لاکھوں نوجوان انٹرنیٹ کے ذریعہ نئے نئے پروگرام اور اپیس بنا کر اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں میں خدمات سے اپنا روز گار وابستہ کیے ہوئے ہیں۔

آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کا دارومدار الگورتھم، یعنی کمپیوٹر کے ذریعہ ریاضی کے قواعد استعمال کرنے کے سائنسدان محمد بن موسی الخوارزمی کے نام پر رکھے گئے مسائل کے حل کے طریقہ کار پر ہے۔

لیکن کیا دنیا نے اپنے آپ کو اے آئی مشینوں کے نظام کے لیے تیار کر لیا ہے؟ کیا تعلیم، زراعت اور صنعت میں ٹیکنالوجی پر بہت زیادہ انحصار سے انسان کی کام کرنے اور سوچنے کی صلاحیتوں کو محدود کر رہا ہے؟ اور کیا سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال، عام لوگوں، عورتوں اور بچوں سمیت غیر محفوظ لوگوں کی ذاتی معلومات غلط ہاتھوں میں پہنچنے کے نتائج سے نمٹنے کے لیے حکومتیں اور معاشرے تیار ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ جبکہ بڑے ترقیاتی نظاموں کی حفاظت، سیاست میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے غلط استعمال اور قانون پر عمل داری حکومتوں کا کام ہے، تاہم افراد کو صارفین کے حیثیت سے اور معاشروں کو مجموعی طور پر بھی انٹرنیٹ جیسے بڑے آن لائن سپر ہائی وے کے پلیٹ فارم کے استعمال کے بارے میں آگاہی کی ضرورت ہے۔

داراحلکومت واشنگٹن سے جڑی ریاست میری لینڈ کی "ٹاؤسن یونیورسٹی” میں "ماس کمیونیکیشن” کے اسسٹنٹ پروفیسر اور مصنوعی ذہانت اور معاشرے کے مسائل کے ماہر ڈاکٹر روف عارف کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط نہیں ہے کہ آج کے لوگ الگورتھم کے کسی حد تک غلام بنتے جارہے ہیں۔

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یہ ڈیجیٹل کمیونیکیشن کا انتہائی اہم موڑ ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ وہ افراد جو پڑھنا لکھنا نہیں جانتے وہ بھی الگورتھم کے استعمال سے مستفید ہو سکتے ہیں۔”ایلگورتھم کی بنیاد پر بنائے گئے پروگرام اور نظام اس طرح سے ترتیب دیے گئے ہیں کہ الگورتھم انسانی خواہشوں، ان کی پسند اور حتی کہ ان کے جذبات تک کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ "

ڈاکٹر روف عارف نے، جنہوں نے جدید کمیونیکیشن اور مصنوعی ذہانت کے موضوعات پر کتابیں اور مقالے لکھے ہیں، نوٹ کیا کہ جیسے جیسے زیادہ سے زیادہ انسان الگورتھم کے طریقہ کار کو استعمال کرتے ہیں ایلگورتھم اتنے ہی ذہین ہوتے جارہے ہیں اور اس کے ساتھ افراد کا ان پر انحصار بڑھتا جارہا ہے۔

"ہم ایسے معاشرے کی طرف بڑھ رہے ہیں جہاں لوگوں کی حالت الگورتھم کے غلاموں کی سی ہو سکتی ہے۔”ڈیٹا اور کاروبار میں ذہانت پر کام کرنے والی کمپنی "اسٹیٹسٹا” کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 5.44 ارب انٹرنیٹ صارفین ہیں۔

ڈاکٹر عارف کے مطابق اس طرح تقریبا 70 فیصد کے قریب لوگ انٹرنیٹ استعمال کررہے ہیں جن میں سے اوسطاً ہر صارف روزانہ 6.35 گھنٹے انٹرنیٹ سے جڑی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتا ہے۔ان کے بقول یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ اگرباقی کے تقریباً 30 فیصد لوگ بھی آن لائن ہوجائیں تو ایلگورتھم کتنے ذہین ہوجائیں گے۔

پہلے ہی، ان کے مطابق انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے کام کرنے کی رفتار میں فرق بڑھتا چلا جارہا ہے۔انسان ایک منٹ میں 800 الفاظ پروسس کرتے ہیں. اس کے مقابلے میں "چیٹ جی پی ٹی” کی حریف "کلاڈ اے آئی” نامی مصنوعی ذہانت سے چلنے والا چیٹ بوٹ کے پاس ایک منٹ میں 75،000 الفاظ پروسس کرنے کی صلاحیت ہے۔

"اگر انسان آرٹیفشل انٹیلی جینس پر اپنا انحصار بڑھاتا جائے گا تو اس کی کریٹیکل تھنکینگ یعنی تنقیدی جائزہ لینے والی سوچ کم سے کم ہونے کا خطرہ ہوگا۔ اور ہم جانتے ہیں کہ اگر چیزوں کو تنقیدی سوچ سے پرکھنے کی صلاحیت ختم ہوجائے تو آزادی ختم ہو جاتی ہے۔”

لہذا جدید ٹیکنالوجی کا استعمال اگرچہ کم وقت کے خرچ کے لحاظ سے پر کشش ہے اس کے اندر خطرات بھی پوشیدہ ہیں۔واشنگٹن میں قائم "انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ انوویشن فاونڈیشن” کی سینیئر پالیسی مینیجر ہودان عمر مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی کی افادیت پر زور دیتی ہیں۔

Popular Categories

spot_imgspot_img