بدھ, ستمبر ۱۰, ۲۰۲۵
22.7 C
Srinagar

انتخابات میں دلچسپی نہیں۔۔۔۔۔

دس سال کے طویل وقفے کے بعد جموں کشمیر میں اسمبلی انتخابات ہو رہے ہیں اور اس سلسلے میں انتظامیہ نے تمام قسم کی تیاریاں مکمل کی ہیں۔سیکیورٹی کے زبردست انتظامات کے بیچ یہ انتخابات صاف و شفاف طریقے سے انجام دینے کے لئے انتخابی کمیشن نے ہدایت جاری کی ہیں ۔جہاں ایک طرف جموں کشمیر کی چند سیاسی جماعتوں نے گٹھ جوڑ کرنے کے لئے حکمت عملی طے کی ہے ، وہیں نیشنل کانفرنس نے کانگریس کے ساتھ سیٹوں کے بٹوارے پر معاہدہ کیاہے اور انہوں نے جموںکشمیر کی تمام سیٹوں پر اپنے مشترکہ اُمیدوار کھڑا کرنے کا فیصلہ لیا ہے ۔ادھر کانگریس کے باغی لیڈر اور سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد نے بھی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ انتخابی گٹھ جوڑ کرنے کے لئے اپنا جال پھینکا ہے، تاہم ابھی تک اس حوالے سے کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ انجینئر رشید کی عوامی اتحاد پارٹی اور اپنی پارٹی کے سربراہ سید الطاف بخاری نے اپنے اُمید وار میدان میں اتار نے کا اعلان کرتے ہوئے کسی کے ساتھ انتخابات سے قبل انتخابی رشتہ قائم کرنے سے صاف انکار کیا ہے۔

اس بات سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا ہے کہ اکثر سیاسی جماعتوں نے حسب سابقہ (پُرانی شراب نئی بوتلوں میں) کے مترادف اپنے پُرانے لیڈروں کو میدان میں اُتارا ہے۔مرکزی حکومت نے گزشتہ دس برسوں کے دوران جس طرح کی کوشش کی تھی کہ نئے لوگوں کو سیاسی میدان میں جگہ فراہم کی جائے، تاہم وہ کوشش ابھی تک کامیاب ثابت نہ ہو سکی۔پی ڈی پی کے اگر چہ کچھ نئے چہرے میدان میں نظر آرہے ہیں ۔تاہم باقی تمام سیاسی جماعتوں میں وہی پُرانے لوگ بطور اُمیدوار نظر آرہے ہیں، ماسوائے نو زائد پارٹیوں کے۔ان حالات میں جموں کشمیر کا سیاسی اُونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ آنے والے چند دنوں میں صاف ہونے کی اُمید ہے۔

ایک بات صاف ہے کہ عوامی حلقوں میں زبردست انتخابی گہماگہمی دیکھنے کو مل رہی ہے، خاصکر نوجوانوں میں جو موجودہ سیاسی سرگرمیوں میں بغیر کسی خوف و ڈر کے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں جو کہ جمہوری عمل کے لئے صحت مند علامت ہے۔سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ لیڈران نے اپنی سرگرمیاں تیز کرتے ہوئے ووٹروں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے زور آزمائی شروع کی ہے ۔ تاہم علیحدگی پسندذہنیت کے سبھی لوگ خاموش دکھائی دے رہے ہیں، وہ ان انتخابات میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں، تاہم انہیں بخوبی معلوم ہےکہ جن سیاستدانوں کی غلطیوں اور زیادتیوں کی وجہ سے انہیں جانی اور مالی نقصان سے دو چار ہونا پڑا تھا، وہی لوگ پھر مسند اقتدار پر براجماں ہونے کے لئے دوڑ د ھوپ کر رہے ہیں اور اُن کا کوئی من پسند سیاستدان انتخابی میدان میں نہیں ہے۔ لہٰذااُن میں مایوسی چھائی ہوئی ہے۔تاہم درپردہ وہ چند ایک سیاسی جماعتوں کے لیڈران کے رابطے میں ۔اگر وہ لوگ ووٹنگ میں حصہ لیتے ہیں، تو انتخابی نتائج سب کے لئے چونکا دینے والے ہوں گے۔بہر حال ووٹ ہر ایک کوڈالنا چاہئے اور یہی ایک صحیح موقعہ ہے جب عوام اپنا من پسند نمائندہ ایون میں بھیج سکتا ہے، جو اُن کے جذبات ،احساسات کی ترجمانی کر ے گا اور ان کے روز مرہ کے مسائل و مشکلات حل کر سکتا ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img