پاکستانی فوج نے ملک کے خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف ٹاپ سٹی کیس میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کرتے ہوئے انھیں حراست میں لے لیا ہے۔پیر کوپاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے ٹاپ سٹی کیس میں درج شکایات کی انکوائری کی گئی تھی جس کے بعد سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو فوج نے اپنی حراست میں لے لیا ہے۔
پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں کی رپورٹس کے مطابق بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹاپ سٹی کیس کی انکوائری کے بعد ’نتیجتاً پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف سخت تادیبی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔‘پاکستانی فوج کا کہنا تھا کہ لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے حوالے سے ’ریٹائرمنٹ کے بعد پاکستان آرمی ایکٹ کے خلاف ورزی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں۔‘’فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا عمل شروع کردیا گیا ہے اور لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ کو فوجی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔‘
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے 8 نومبر 2023 کو ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کی جانب سے جنرل (ریٹائرڈ) فیض حمید کے خلاف درخواست نمٹاتے ہوئے ریمارکس دیے کہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور ان کے معاونین کے خلاف شکایات کے ازالے کے لیے وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کریں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس امین الدین اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے ’ٹاپ سٹی ہاؤسنگ اسکیم‘ کے مالک معز احمد خان کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔درخواست کے مطابق 12 مئی 2017 کو پاکستان رینجرز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اہلکاروں نے دہشت گردی کے ایک مبینہ کیس کے سلسلے میں ٹاپ سٹی کے دفتر اور معز خان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مار کر سونے اور ہیروں کے زیورات اور رقم سمیت قیمتی سامان لوٹ لیا۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے بھائی سردار نجف نے ثالثی کی اور مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی، بریت کے بعد جنرل (ر) فیض حمید نے معز خان سے ان کے کزن کے ذریعے ملاقات کا بندوبست کرنے کے لیے رابطہ کیا جوکہ فوج میں ایک بریگیڈیئر ہیں۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ ملاقات کے دوران جنرل (ر) فیض حمید نے درخواست گزار کو کہا کہ وہ چھاپے کے دوران چھینا گیا 400 تولہ سونا اور نقدی کے سوا کچھ چیزیں واپس کردیں گے۔درخواست میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم فخر اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر غفار نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو 4 کروڑ نقد ادا کرنے اور کچھ مہینوں کے لیے ایک نجی چینل ’آپ ٹی وی نیٹ ورک‘ کو اسپانسر کرنے پر مجبور کیا۔
درخواست کے مطابق آئی ایس آئی کے سابق عہدیدار ارتضیٰ ہارون، سردار نجف، وسیم تابش، زاہد محمود ملک اور محمد منیر بھی ہاؤسنگ سوسائٹی کے غیر قانونی قبضے میں ملوث تھے۔دلائل کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سپریم کورٹ کا ہیومن رائٹس سیل مذکورہ ہاؤسنگ سوسائٹی سے متعلق ایک اور کیس بھی نمٹا چکا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعلقہ ریکارڈ طلب کیا تو عدالت کو بتایا گیا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عہدہ چھوڑنے سے قبل تمام ریکارڈ کو ضائع کرنے کا حکم دیا تھا۔عدالت نے ریمارکس دیے کیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کے نفاذ سے متعلق نہیں ہے اور درخواست گزار کو وزارت دفاع سمیت متعلقہ فورم سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔
عدالت نے یہ بھی نشان دہی کی کہ درخواست گزار بدنیتی پر مبنی مقدمہ چلانے پر جنرل (ر) فیض حمید اور دیگر ریٹائرڈ افسران کے خلاف سول یا فوجداری عدالت میں کیس دائر کر سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ کے بینچ نے مزید ریمارکس دیے کہ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے اپنے چیمبر میں ہاؤسنگ اسکیم سے متعلق کیس کی سماعت آئینی دفعات کے مطابق نہیں تھی۔