جمعہ, ستمبر ۲۰, ۲۰۲۴
24.9 C
Srinagar

آئندہ بجٹ اجلاس اور مہنگائی ۔۔۔۔۔

پارلیمنٹ کا بجٹ اجلاس رواں ماہ کی 22تاریخ سے شروع ہوگا اوراگلے روز یعنی 23 جولائی کو ملک کی وزیرخزانہ نرملا سیتا رمن ملک کا سالانہ بجٹ پیش کریں گی۔18ویں لوک سبھا کی تشکیل کے بعد پارلیمنٹ میں ممبران کی جانب سے صرف صدر ہند کے خطاب پر بولتے ہوئے سُنا اور دیکھاگیا۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گزشتہ 10برسوں کے دوران جہاں ملک نے اقتصادی ترقی کی نئی منازل طے کیں، وہیں ملک بھر میں مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ہے۔کھانے پینے کی مختلف چیزوں پر جس طرح گڈز اینڈ سروسز ٹیکس ’جی ایس ٹی‘ عائد کیا گیا ہے، اُس کی وجہ سے ہر چیز کی قیمت روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ملک کا عام انسان مشکل سے اپنی دووقت کی روٹی کا انتظام کرپاتا ہے، جہاں تک بچوں کی تعلیم وتربیت کا تعلق ہے، وہ بھی اب مشکل ہے کیونکہ تمام پرائیویٹ اسکولی میں مختلف فیس بڑھائی گئی،ٹیوشن فیس ،بس فیس بڑھانے کے علاوہ وردی اور کتابوں کی قیمتیں بھی اب اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ غریب اور متوسط درجے کے لوگ پریشان ہوتے جارہے ہیں۔سرکار نے اگر چہ سرکاری اسکولوں میں مفت تعلیم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے لیکن کوئی بھی شخص اپنے بچے کو سرکاری اسکول میں داخلہ کرانے کے لئے تیار نہیں ہوتا ہے۔

اکثر والدین کا ماننا ہے کہ سرکاری اسکولوں میں تعلیم برائے نام ہے، جو کہ ایک تلخ حقیقت ہے۔اگر ایسا نہیں ہوتا تو سرکاری اسکولوں میں تعینات اساتذہ اپنے بچوں کو ان ہی سرکاری اسکولوں میں داخلہ کرواتے، جہاں سے وہ لاکھوں کی تنخواہ وصول کرتے ہیں۔اگر ہم جموں کشمیر کا سرسری جائزہ لیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ کوئی بھی سرکاری ملازم اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں داخلہ نہیں کراتا ،جس سے یہ بات صاف ہورہی ہے کہ ملک میں کوئی بہتر تعلیمی پالیسی نہیں ہے۔پارلیمنٹ ہو یا کہ کسی ریاست کی اسمبلی یہ ایوان اس لئے سب سے بُلند و بالا مانے جاتے ہیں کیونکہ اس میں عوام کے منتخب نمائندے عوام کی بھلائی و بہتری کے لئے اچھی اور بہتر پالیسیاںبناتے ہیں، اس طرح عام لوگوں کی خدمت کرتے ہیں اور لوگوں کو ہر ممکن سہولیت پہنچاتے ہیں۔بدقسمتی سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان اہم جمہوری ایوانوں میں اب سیاستدان صرف اپنی سیاست چمکاتے ہیں اور عوام کی بہتری اور بھلائی کے لئے کوئی ڈھنگ کی بات نہیں کرتے، آخر کس طرح ملک کے عوام خوشحال اور ترقی یافتہ بن سکتے ہیں۔ائر کنڈیشنوں میں رہاش پزیر لوگ ان باتوں سے بے خبر ہیں کہ ملک کا غریب عوام کس قدر شدید گرمی اور شدید سردی میں پریشان ہو رہا ہے ۔کبھی پانی کی عدم دستیابی اور کبھی بجلی کی کٹوتی سے اُن کے بچے صحیح ڈھنگ سے پڑھ بھی نہیں پاتے ہیں۔مودی حکومت کو اس بات کا کریڈٹ ملتا ہے کہ انہوں نے دس برسوں کے دوران ملک میں آن لائن نظام رائج کر کے نہ صرف غریب بچوں کے حقوق کو تحفظ فراہم کیا ،جو قابل اور ذہین ہونے کے باوجود بھی کوئی خاص مقام حاصل نہیں کرپاتے تھے کیونکہ اثر ورسوخ رکھنے والے لوگ اُن کے حقوق پر شب خون مار کرچھین لیتے تھے۔جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے، اس پر ابھی تک کسی قسم کی روک نہیں لگ رہی ہے۔ملک کی وزیر خارجہ اور اُن کی ٹیم کو اس حوالے سے سنجیدگی سے کام کرنا چاہیے اور دیگرشعبوں کی ترقی کے ساتھ ساتھ تعلیمی شعبے کی بہتری کے لئے بہتر اقدامات اُٹھانے چاہیے اور ملک میں مہنگائی کے خاتمے کے لئے ایک مربوط لائحہ عمل مرتب کرنا چاہیے، تاکہ مہنگائی سے جوجھ رہے عام لوگ راحت و سکون کی سانس لیںجن کی کمر فی الحال مہنگائیسے ٹوٹ چکی ہے۔

Popular Categories

spot_imgspot_img