کسی بھی ملک ،سماج اور معاشرے کو مختلف مسائل کی دلدل سے باہر نکالنے کے لئے کوئی نہ کوئی لیڈر ،اللہ تعالیٰ کی جانب سے مبعوث ہوتا ہے ،جو اس بدحال ملک، معاشرے یا سماج کو جےنے کی بہترین راہ دکھاتا ہے اور اس طرح لوگ انہیں نہ صرف اپنا نجات دہندہ لیڈر اور مسیحا مان لیتے ہیں بلکہ ان قوموں کی حیاتی تب تک رہتی ہے، جب تک وہ اپنے اُس لیڈر کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔وادی کشمیر کا جہاں تک تعلق ہے صدیوں سے اس وادی میں مختلف سیاستدانوں ،راجہ مہاراجوں اور بادشاہوں نے اپنی حکومت چلائی ہے ۔ کسی نے لوگوں پر ظلم و جبر کیا اور کسی نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کئے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کا نام بھی اہلیان وادی بھو ل گئے یا پھر مورخوں نے ان بادشاہوں،راجہ مہاراجوں اور سیاستدانوں کے نام و واقعات کتابوں میں درج کئے۔ جب کوئی فرد ان کتابوں کی ورق گردانی کرتا ہے تو اس سے معلوم ہو تا ہے کہ ایک زمانے میں یہ لوگ بھی یہاں اعلیٰ عہدوںپر فائز رہے ہیں۔
جہاں تک کسی ایسی شخصیت کا تعلق ہے ،جنہوں نے قوم کو ہر محاذ پر رہنمائی فرمائی اور ہر لحاذ سے لوگوں کو بہتر ڈھنگ سے جینے کی راہ دکھائی ہو اور وہ بھی حکم خدا وندی کے مطابق پھر اُن شخصیات کا محبت و اُنس پیدا ہوتا ہے اور ان کا احسان ہمیشہ قوم یاد رکھتی ہے۔ اس طرح نسل در نسل یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔جہاں تک حضرت میر سید علی ہمدانی رحمت اللہ علیہ کا تعلق ہے، انہوں نے اس قوم کو نہ صرف روحانی تعلیمات سے روشناس کرایا بلکہ انہوں نے یہاں کے لوگوں کو اقتصادی ،معاشی اور ثقافتی اعتبار سے بھی خودکفیل بنایا تھا۔وادی کی دستکاری صنعت کا تعلق ہو یا پھر زعفران کی کاشتکاری کا ۔ یہ سب کچھ اسی عظیم ہستی کی دین ہے۔وہ نہ صرف ایک ولی اللہ تھے بلکہ وہ ماہر اقتصادیات اور روحانی پیشوا بھی تھے ۔انہوں نے اوراد ِفتح کی صورت میں اہلیان کشمیر کو ایک ایسا انمول تحفہ فراہم کیا ہے جسے پڑھنے والاعام انسان بھی واقعی روحانی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
آج یعنی جمعرات کووادی بھر میں اس اعظیم المرتب ہستی کا عرس پاک عقیدت مند نہایت ہی عقیدت و احترام سے منایا جائے گا اور اہل ا عتقاد حضرات ان کے تعمیر کردہ خانقاہوں میں جاکر ختمات المعظمات کی مجالس میں شرکت کریں گے اور علماءحضرات اُ نکی تعلیمات پرروشنی ڈالیں گے، لیکن اس سے بات نہیں بن سکتی ہے کیونکہ گزشتہ تین دہایﺅں سے اہلیان کشمیر آپ کی تعلیمات سے بہت دور چلے گئے ہیں ،جو انہوں نے بھائی چارے،اخوت مساوات اور ہنر مندی کا سبق دیا تھا ہمارے نو نہال اُن تعلیمات سے پوری طرح بے خبر ہیں ۔علماءو دانشور حضرات کی اخلاقی ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ شاہ ِ ہمدان حضرت میر سید علی ہمدانی رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات وادی کے گھر گھر تک پہچانے میں اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھائیںاور اُن کے مشن کی آبیاری کریں تاکہ اہل وادی پھر سے اُس ڈگر پر واپس آئیں جس سے وہ دور چلے گئے ہیں۔یہی بہترین خراج عقیدت ہے اور اسی سے اہلیان وادی کا بھلا ہو جائے گا ۔