لاپرواہی اور غیر ذمہ داری۔۔۔۔۔۔۔

لاپرواہی اور غیر ذمہ داری۔۔۔۔۔۔۔

وادی کشمیر دنیا بھر میں ایک ایسی جگہ تصور کی جاتی ہے ،جہاں انسانی جان کی قدر و قیمت بہت کم ہے۔بڑھتے ہو ئے ٹریفک حادثات،بجلی کرنٹ لگنے سے ہو رہے روزانہ واقعات اوراسپتالوںمیں زیر اعلاج بیماریوں کے ساتھ ہو رہی لاپرواہی اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اس خطے میں انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے ۔اس تباہ کُن صورتحال کے لئے کن چیزوں کو ذمہ دار ٹھرایاجاسکتا ہے؟کہنا مشکل ہے لیکن جہاں تک گزشتہ تین دہائیوں کے نامساعد حالات کا تعلق ہے ،ان کے دوران یہاں بے شمار انسانی خون خود انسان نے بہایا ہے ۔ہر نکڑ اور ہر چوراہے پر انسانوں کی لاشیں دکھ رہی تھیں ،شہر ودیہات میں انسانی خون پانی کی طرح بہہ رہا تھا اور یہ سب کچھ یہاں کے عام و خاص کو روز دیکھنے اور سُننے کو ملا۔ شاید یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کے دل سخت ہو گئے ہیں اور اکثر لوگ انسان اور انسانیت کو کسی خاطر میں لائے بغیر اپنے اپنے کام کاج میں مست و مگن ہو کر ان حادثات کا فقط تماشہ دیکھ رہے ہیں اور جب اُن کی باری آتی ہے، تب سماج اور معاشرے کو کوسنا شروع کردیتا ہے۔

ایک دوسرے پر الزام عائد کرتا ہے اور خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔اگر ہم وادی کشمیر کا سرسری جائزہ لیں تو یہ بات اخذ ہو رہی ہے کہ روزانہ درجنوں افراد انسان کی لاپرواہی سے از جان ہو رہے ہیں۔تیز رفتاری سے گاڑی چلانے والا ڈرائیور لاپرواہی سے کام لیتا ہے اور رہ چلتے مسافر کو اپنی گاڑی کے نیچے کچل دیتا ہے۔بجلی محکمے میں کام کررہے ملازمین لاپرواہی اور غیر ذمہ داری سے کام لیکر اپنے ہی ساتھی ملازم کی جان لیتے ہیں۔اسپتالوں میں زیر اعلاج ایسے مریض موت کے آغوش میں چلے جاتے ہیں جن کی بیماری اسپتال میں داخل کرتے وقت معمولی سی ہوتی ہے لیکن اسپتالوں میں موجود ڈاکٹر اور طبی عملے کی لاپرواہی سے وہ موت کے مُنہ میں چلے جاتے ہیں ۔صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں اس طرح کے کیس روز سامنے آتے ہیں۔جہاں تک محکمہ بجلی کا تعلق ہے یہاں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہورہے ہیں ۔گزشتہ دنوں بڈگام میں کئی ملازم از جان ہو گئے۔صفاکدل میں ایک بجلی انسپکٹر کرنٹ لگنے سے از جان ہو گیا۔گزشتہ روز حول علاقے میں ایک بجلی ملازم دوسرے ملازمین کی لاپرواہی سے از جان ہو گیا۔غرض وادی میںعام لوگوں کے دل سخت ہو گئے ہیں ،انہیں انسانی زندگی سے کھلواڑ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیںہوتا، جو بہرحال اس قوم کی بد قسمتی ہے۔ہمارے مقابلے میں ترقی یافتہ ممالک میں انسانی زندگی کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔

شاید اسی لئے وہاں کی سڑکوں پر ایسی جدید قسم کی ایمبولنس گاڑیاں دن رات گشت کررہی ہوتی ہیں، جن میں تمام تر سہولیات اور ڈاکٹر میسر ہوتے ہیں ۔تاکہ حادثے کی صورت میں عین وقت پر اعلاج ہو سکے۔وہاں قانوں کی خلاف ورزی کرنے پر سخت سزا دی جاتی اس کے برعکس یہاں کھلی چھوٹ دی جاتی ہے۔جب تک کسی قوم میں پوری طرح بیداری نہیں ہو جاتی ہے اور ہر انسان کو اپنی ذمہ داریوں کا احسان نہ ہو تب تک اُس قوم کی حالت بدلنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔لہٰذا ہر ایک فرد کواپنی اپنی جگہ سے تبدیل ہوناپڑے گا تاکہ انسان اور انسانیت کا بھلا ہو سکے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published.