رسم و رواج کے نام پر صنفی امتیازسے پاک نہیں ہوا معاشرہ

رسم و رواج کے نام پر صنفی امتیازسے پاک نہیں ہوا معاشرہ
مہیما جوشی
ایسی بہت سی رسمیں ہمارے معاشرے میں اکثر دیکھنے کو ملتی ہیں جن کی وجہ سے صنفی امتیاز صاف نظر آتا ہے۔ یہ امتیاز لڑکے اور لڑکی کی پیدائش سے لے کر ان کی شادی، جہیز اور جائیداد کے حقوق تک کے معاملات میں نظر آتا ہے۔ جہاں لڑکے کی پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے، وہیں لڑکی کی پیدائش پر گھر میں سوگ چھا جاتا ہے۔ حاملہ خواتین کے سسرال والے توقع کرتے ہیں کہ وہ لڑکے کو جنم دیں گی۔ ایک عورت کے جتنے بیٹے ہوتے ہیں معاشرے میں اس کی اتنی ہی عزت ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جو عورت بچی کو جنم دیتی ہے وہ ذلیل ہوتی ہے۔ یہ امتیاز شہری علاقوں کے مقابلے ملک کے دیہی علاقوں میں زیادہ نظر آتا ہے۔ کئی بار خواتین اس قسم کے تشدد سے اس قدر متاثر ہو جاتی ہیں کہ ان کا رویہ بھی ایسے معاملات میں امتیازی نظر آنے لگتا ہے۔ کئی بار دیہی علاقوں میں حمل کے دوران غیر قانونی طور پر جنس کا تعین کیا جاتا ہے اور یہاں تک کہ جنین کا قتل بھی کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی لڑکی خوش قسمتی سے زندہ بچ جاتی ہے تو اسے جہیز اور دیگر رسومات کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔تعلیم اور بیداری کی وجہ سے جہاں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والی ایسی بہت سی رسومات اور روایات شہری علاقوں میں تقریباً ختم ہو چکی ہیں وہیں ملک کے دور دراز دیہی علاقوں میں یہ آج بھی معاشرے کے لیے بدنما داغ بنی ہوئی ہے۔ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ کا لاما بگڈ گاؤں اس کی ایک مثال ہے۔ باگیشور ضلع کے کپکوٹ بلاک سے تقریباً 21 کلومیٹر دور اس گاؤں میں ایسی کئی سماجی برائیاں نظر آتی ہیں، جن کی وجہ سے صنفی امتیاز صاف نظر آتا ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اسے ختم کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
 پنچایت سے موصولہ اعداد و شمار کے مطابق اس گاؤں کی آبادی تقریباً 1500 ہے۔ اس شیڈول ٹرائب اکثریت والے گاؤں میں اعلیٰ ذاتوں کی تعداد صرف دس فیصد ہے۔ خواندگی کے معاملے میں بھی مردوں اور عورتوں میں بہت فرق ہے۔ خواتین کی خواندگی کی شرح 40 فیصد مردوں کے مقابلے میں صرف 22.2 فیصد ہے۔ جہاں یہ فرق بیداری کی کمی کو ظاہر کرتا ہے وہیں یہ جہیز جیسی برائی کو معاشرے میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں بھی مدد دیتا ہے۔اس سلسلے میں گاؤں کی ایک 20 سالہ نئی شادی شدہ خاتون کملا (تبدیل شدہ نام) کہتی ہیں، ”میری حال ہی میں شادی ہوئی ہے۔ میرے شوہر سرکاری ملازمت کرتے ہیں۔ شادی کے وقت میرے سسرال والے بہت ڈیمانڈ کر رہے تھے۔ اچھا رشتہ دیکھ کر میرے گھر والوں نے ان کے تمام مطالبات مان لیے اور بہت سا جہیز دیا۔ جس کی وجہ سے وہ قرض میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میں ان کا دکھ نہیں دیکھ سکتی۔ اس کی وجہ سے میں کئی بار ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہوں۔ کون جانے کب تک وہ یہ قرض چکاتے رہے نگے۔“ 12ویں کلاس میں پڑھنے والی ایک نوعمر لڑکی کملا کہتی ہے کہ”میں ایک سرکاری اسکول میں پڑھتی ہوں جبکہ میرا بھائی شہر میں پڑھنے گیا ہوا ہے۔ 12ویں کے بعد میرے گھر والے مجھے مزید تعلیم نہیں دیں گے۔ جب بھی میں آگے پڑھنے کی بات کرتی ہوں تو میرے گھر والے کہتے ہیں کہ جو کچھ تمہاری تعلیم پر خرچ کرنگے اتنے پیسے میں تمہاری شادی کے لیے جہیز کا انتظام کیا جائے گا، اسی لیے بارہویں کے بعد مجھے گھر کا کام کرنے کو کہا گیا ہے۔ میں بھی پڑھنا چاہتی ہوں لیکن جہیز کے نام پر مجھے تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے۔
تاہم، لاما بگڈ گاؤں میں کچھ خاندان ایسے بھی ہیں جہاں بیداری کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم کے کافی مواقع مل رہے ہیں۔ گاؤں کی 19 سالہ ہیما گڈھیا کہتی ہے کہ ”خاندان میں میرے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا ہے۔ بارہویں کے بعد میں اب کالج بھی کر رہی ہوں۔ مجھے مزید تعلیم حاصل کرنے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کے سارے مواقع مل رہے ہیں۔ میرے والدین مجھ پر کوئی پابندی نہیں لگاتے ہیں۔ مجھے کبھی نہیں بتایا گیا کہ جہیز جمع کرنے کی وجہ سے تمہاری پڑھائی بند ہو جائے گی۔“ ہیما کہتی ہے کہ جس گھر میں بیداری ہوگی وہاں لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے اور ترقی کرنے سے نہیں روکا جائے گا۔یہ ممکن ہے کہ کئی بار گھر کی مالی پریشانیوں کی وجہ سے لڑکیوں کو پڑھائی چھوڑنی پڑتی ہے لیکن جہیز کے نام پر انہیں تعلیم سے محروم نہیں کیا جانا چاہئے۔گاؤں کی 43 سالہ خاتون منا دیوی کا کہنا ہے کہ ”جہیز کی برائی صدیوں سے چلی آ رہی ہے، جسے وقتاً فوقتاً مختلف نام دیے جاتے رہے ہیں۔ پہلے لڑکی کے گھر والے اس برائی کو بطور تحفہ دیاکرتے تھے، آج یہ کھلے عام ہونے لگا ہے۔ آج لڑکے کے گھر والوں کی طرف سے اسے اپنے وقار کا مسئلہ سمجھنا شروع ہو گیا ہے۔ جبکہ یہ کوئی وقار نہیں بلکہ غیر اخلاقی فعل ہے، جس میں پورا معاشرہ تعاون کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر کوئی لڑکی مانگ سے کم جہیز لاتی ہے تو اسے سسرال میں ذہنی اذیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ اب سماجی سطح پر اس برائی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے معاشرے کو خود بیدار ہونا پڑے گا۔ اس کے خلاف مہم چلانے کی ضرورت ہے۔“
وہیں 50 سالہ ایک والدین وشنو دت کہتے ہیں،”جہیز ایک ایسی برائی ہے کہ اسے رواج کا نام دے دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے نہ صرف لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے بلکہ بعض اوقات وہ ذہنی اذیت کا بھی شکار ہو جاتی ہیں اور ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ہیں۔ جہیز جیسی برائی کی وجہ سے معاشی طور پر کمزور گھرانوں کی لڑکیوں کی شادیاں رک جاتی ہیں۔“ ساتھ ہی 73 سالہ کلاوتی دیوی کہتی ہیں کہ ”ہمارے دور میں بھی جہیز جیسی برائی تھی۔ لیکن اس کے لیے لڑکی کی جانب سے کوئی دباؤ نہیں ڈالا جاتا تھا۔ آج یہ جہیز نہیں بلکہ انسانی لالچ بول رہا ہے کیونکہ اب روزگار کے مواقع کم ہیں اور بے روزگاری بڑھ گئی ہے جس کی وجہ سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جتنا پیسہ مل جائے لینا ٹھیک ہے۔ اس کے لیے لڑکے والوں کی جانب سے زیادہ جہیز دینے کے لیے دباؤ بھی ڈالا جاتا ہے۔ جو لڑکیاں کم جہیز دیتی ہیں ان کا استحصال اور تشدد کیا جاتا ہے۔ اس لیے یہ سماجی برائی اب مکمل طور پر غیر قانونی جرم میں تبدیل ہو چکی ہے۔
حالانکہ ملک میں جہیز کے خلاف انسدادِ جہیز کا قانون پہلی بار 1961 میں ہی نافذ کیا گیا تھا، جس کے بعد وقتاً فوقتاً اس میں ترمیم کرکے اسے مزید سخت کیا جاتا رہا ہے تاکہ خواتین کو جہیز کے نام پر کسی بھی قسم کے جسمانی یا ذہنی جبر سے محفوظ رکھا جاسکے۔ اس کا اثر بھی دیکھا گیا ہے۔ لیکن جن نتائج کی توقع کی جانی چاہیے تھی وہ آج بھی نظر نہیں آ رہی ہے۔ یوں تو شہری علاقوں میں بیداری کی وجہ سے خواتین جہیز مانگنے والوں کو جیل بھیج کر سبق سکھاتی ہیں لیکن دیہی علاقوں میں یہ شرح اب بھی بہت کم ہے۔ درحقیقت دیہی علاقوں میں اس برائی کو رسم و رواج کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن بہتر ہو گا کہ معاشرے کو ان رسوم کے خلاف بیدار کیا جائے جو صنفی امتیاز کو فروغ دیتے ہیں۔ یہ مضمون سنجوئے گھوش میڈیا ایوارڈ 2023 کے تحت لکھا گیا ہے۔
(چرخہ فیچرس)

Leave a Reply

Your email address will not be published.