رئیس احمد بٹ
اللہ تعالی نے انسان کو عقل سلیم سے نواز کر اشرف المخلوقات بنایا ا اور اس شرف و فضیلت کے باوجود بھی اس کی اصلاح اور راہنمائی کے لیے ہر قوم میں پیغمبر و رسول اور اپنے برگزیدہ بندوں کی بعثت کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور پھر حضرت محمد ﷺ کی امت کو ایک اللہ ایک رسول اور ایک کتاب کی چھتری تلے آخری امت کا درجہ دے کر ساتھ ہی اعلان بھی کر دیا کہ آج میں نے اپنے دین کو مکمل کر دیا ہے۔ اس کے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی آسمانی کتاب اور ساتھ ہی حضرت آدم ؑ سے لے کر عیسی ؑ تک مختلف قوموں کے احوال بھی بتا دیے کہ کن بداعمالیوں کی وجہ سے ان قوموں کا شیرازہ بکھرتا رہا اور ہر پیغمبر کے بعد دوسرے کی ضرورت کیوں پیش آتی رہی۔
اگر قرآن پاک اور احادیث کا مطالعہ کیا جائے تو سابقہ قوموں کی تباہی کی جو سب سے اہم وجوہات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں نبیوں کو جھٹلا کر اپنی اپنی مرضی کا دین ایجاد کرنا سب سے اہم وجہ سامنے آتی ہے۔ اسی لیے اسلام اجتماعیت یعنی (Unity) پر سب سے زیادہ زور دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عبادات میں باجماعت نماز کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے بلکہ یہاں تک حکم ہے کہ اگر دو مسلمان بھی موجود ہوں اور نماز کا وقت ہو جائے تو وہ باجماعت نماز پڑھیں- عبادات سے ہٹ کر عائلی زندگی میں بھی ایک امیر اور سربراہ کے ماتحت رہنے اور اتحاد و اتفاق کا درس دیا گیا ہے۔
معاشرے میں گھر سب سے چھوٹی اکائی ہوتی ہے۔ گھر میں والد کو سربراہ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور اگر والد نہ ہو تو بڑے بھائی کو والد کا مقام و مرتبہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح ریاست کی سطح پر پھر حاکم وقت کی اطاعت لازم کی گئی ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ گھر سے لے کر ریاست تک ہر سطح پر اجتماعیت ہو اور مسلمان نہ صرف آپس میں بھائی بھائی بن کر زندگی گزاریں بلکہ مشکلات میں بھی ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں۔
لیکن آج انتہائی دکھ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اختلاف رائے اپنی جگہ ہم ایک اللہ ایک نبی اور ایک کتاب کو ماننے کے باوجود مختلف جماعتوں فرقوں اور مسلکوں میں بٹ چکے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے کی مساجد میں نماز تک پڑھنے کے لیے تیار نہیں- چھوٹے چھوٹے اختلافات میں اتنا الجھ چکے ہیں کہ مسلمان مسلمان کا قتل کر رہا ہے۔
ساری تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ اختلاف رائے تو اپنی جگہ لیکن حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں جن کا عملی مظاہرہ ہمیں روزمرہ زندگی میں دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے. اور ان حالات سے ہمارا روزانہ واسطہ پڑتا ہے۔ شیعہ سنی کا مسئلہ تو ہر وقت ہی رہتا ہے۔ رستے میں جا رہے ہوں نماز کا وقت ہو جائے تو دو دوستوں کے درمیان کس مسجد میں نماز پڑھنی ہے۔ بریلوی وہابی کا جھگڑا شروع ہوجاتا ہے جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔ نیک و بد اور جنت دوزخ کا فیصلہ اللہ نے کرنا ہے لیکن سرٹیفیکیٹس ہم تقسیم کر رہے ہوتے ہیں۔
ہمارے پاس اس کی کیا سند ہے کہ فلاں مسلک کے سارے لوگ جنت میں جائیں گے اور فلاں کے سارے جہنمی ہیں۔ اگر یہ کوئی نہیں بتا سکتا تو پھر اس کو اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے اعمال کا دار و مدار تو نیتوں پر ہے۔ کس کی کیا نیت ہے۔ یہ اس کا اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ ہمارا تو ایمان ہے کہ یہ نبی کا معجزہ اور دین اسلام کا حسن ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے دائرہ اختیار میں نبی کی کسی نہ کسی سنت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
باقی رہا مسئلہ شرک و بدعت کا تو شرک و بدعت کے سارے کام جاہل کم پڑھے لکھے اور عقل سے عاری لوگوں کے ہاتھوں ہو رہے ہیں۔ میں مختلف مسلک کے علماء کرام کو سنتا ہوں اور سوشل میڈیا پر مختلف علماء کو سننے کا موقع ملتا ہے۔ پھر چاہے وہ شیعہ عالم رضا ثاقب مصطفائی، مولانا جواد نقوینقوی ہو یا مولانا شہنشاہ نقوی ہو، یاپھر سنی عالم مولانا طارق جمیل، مولانا ڈاکٹر اسرار احمد ہو یا محمد علی مرزا غرض میں ہر کسی کو تواتر کے ساتھ سنتا چلا آ رہا ہوں ۔ یہ سب الگ الگ مسلک (school of thought) سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن سب کی باتیں سننے کی ہوتی ہے۔ دل کو لگتی ہیں اور اثر کرتی ہیں اور اس وقت دلی خوشی ہوتی ہے جب وہ اپنے اپنے بیان میں ایک دوسرے کے بارے میں اچھی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے علمی اختلاف بھی ظاہر کرتے ہیں۔
اسی طرح ان اور ان جیسے دیگر علماء کرام کی تصانیف کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نہ صرف ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے نظر آتے ہیں۔ بریلوی مکتبہ فکر کے مختلف علماء کی تحریروں میں مودودی ؒکی کتابوں خصوصاً سیرت النبی کے حوالہ جات میں نے خود پڑھے اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مسلکی و گروہی اختلافات کو بڑے بڑے علماء کرام نہیں بلکہ کسی اور سطح پر ہوا دی جاتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک تو نامور علماء دین ان اختلافات کو کم کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور دوسرا عوام ایسے (نیم ملا خطرہ ایمان) ملاؤں کی اندھی تقلید نہ کریں بلکہ وہ ایسے علماء سے راہ نمائی لیں جو بین المذاہب و مسالک ہم آہنگی کے داعی ہیں۔ ہمارے کشمیر میں خاص طور پر ہمارے مزہبی عالموں اور خطیبوں کو چاہیے کہ وہ ممبروں پر لوگوں کو خدا کا کلام اور رسول ﷺ کی حیات بیان کر کے انہیں آخرت کے سفر کیلۓ تیار کرنے میں اپنا کردار ادا کرے نا کہ وہ لوگوں کو اپنے اپنے مسلکوں کے ساتھ جوڑنے کے لئے انہیں دوسروں کے عقائد کو غلط ثابت کرنے کے اوپر درس دے۔۔
اِن مِمبر و مہراب سے ذرا بچ کر چلنا۔۔۔
یہ خُد بول کے کہتے ہیں خُدا بول رہا ہے۔۔
بصورت دیگر ہمیں بیرونی دشمن کی ضرورت نہیں بلکہ خدانخواستہ یہ اختلافات ہی ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے لیے کافی ہیں اور اس سے ہمارا دشمن فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔
اللہ پاک ہم سب کو سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین